فطرت اپنے رنگ‘ اپنی بہاریں‘ اپنے موسم اور طلوع و غروب کی سب رعنائیاں اپنے اصولوں کے مطابق دکھاتی ہیں۔ یہ راز اگر صنعتی دور کے حکمرانوں پر کھلتا تو وہ شاید اپنی حرص کو لگام دیتے اور فطرت پر صنعتوں کے اثرات کا خیال رکھتے۔ افسوس تو یہ ہے کہ جب واضح ہو گیا کہ ہم نے اسے آلودہ کر لیا ہے‘ پھر بھی وہی پرانی روش جاری رہی۔ کوئی جنگلی درخت‘ پھلدار پودا اور کوئی فصل اپنی خواہش کے مطابق تو بو سکتے ہیں مگر کاٹیں گے اتنا ہی جتنا زمین کی قسم‘ موسم اور آب و ہوا آپ کو اجازت دے گی‘ جو اَب موسمی تبدیلیوں کے زیر اثر ہیں۔ ہمیں اس بات کا ادراک کم ہے کہ ہمارے موسم اپنی مقامیت کھو چکے ہیں۔ صنعتی ترقی کے جوش اور زر و دولت اور سامانِ تعیش کے جنون نے مادیت پرستی کو اتنا فروغ دیا کہ اس کے ماحولیات پر نتائج کے بارے میں سوچنے کا بالادست طبقات کو ہوش ہی نہ رہا۔ آنکھیں اس وقت کہیں کہیں کھلنا شروع ہوئیں جب سائنسدانوں نے 1970 ء کی دہائی میں یہ انکشاف کیا کہ جو گیسیں اور کیمیائی مادے ہم روز مرہ کی اشیا میں استعمال کرتے ہیں‘ ان کی وجہ سے اوزون کی تہہ کو نقصان پہنچ رہا ہے۔ اوزون ہمارے اوپر آسمان کی وہ زیریں سطح ہے جو سورج کی حدت سے زمین کی ہر نوع کی حیات اور ماحول کا دفاع کرتی ہے۔ لیکن ان گیسوں اور کیمیائی مادوں کے اخراج سے یہ پتلی ہورہی ہے۔ انہوں نے آنے والے خطرات سے نصف صدی پہلے آگاہ کر دیا تھا کہ موسم تبدیل ہوں گے اور انسانی‘ حیوانی اور نباتاتی زندگی زمین پر مشکلات سے دوچار ہو گی۔ سرمایہ داری نظام کی نوعیت ہی ایسی ہے‘ وہ دور رس نتائج کے بجائے آج کی دنیا میں گم ہو جانے کی ترغیب دیتا ہے۔ حسبِ روایت مغرب میں حکمران طبقات نے اس تحقیق کو سائنسی فسانہ نگاری سے کچھ زیادہ اہمیت نہ دی۔ سائنسدانوں نے سرمایہ دار دنیا کا ضمیر جھنجھوڑنا جاری رکھا۔ 1985ء میں سائنسدانوں کی ایک ٹیم نے اوزون کی تہہ پر تحقیق کا دائرہ بڑھاتے ہوئے یہ بات کی کہ کچھ جگہیں ایسی ہیں جہاں اس کا پردہ تحلیل ہو چکا ہے۔ اس کا مطلب واضح تھا کہ سورج کی شعاعیں زمین کی تابکاری میں اضافہ کریں گی۔
اوزون کی تہہ کا مسئلہ تو وہیں رہا مگر دنیا میں بڑھتے ہوئے کار کلچر نے گزشتہ چالیس برسوں میں مزید تباہی پھیلا دی۔ یہ صرف کروڑوں میں کاریں نہ تھیں بلکہ ٹرانسپورٹ کے دیگر شعبوں میں پٹرول اور ڈیزل کا استعمال اور بجلی پیدا کرنے کے لیے کوئلے اور معدنی تیل کے استعمال نے کرۂ ارض کے بڑھتے ہوئے درجہ حرارت میں مزید اضافہ کر دیا۔ صنعتی دورکے شروع سے لے کر آج تک‘ اندازہ ہے کہ اڑھائی ڈگری سنٹی گریڈ کا اضافہ ہوچکا ہے۔ یہ کہا جا رہا ہے کہ اب بارشیں وہاں ہو رہی ہیں جہاں کبھی نہیں ہوتی تھیں۔ زندگی میں کبھی نہیں سنا تھا کہ سعودی عرب اور خلیجی ریاستوں میں اچانک طوفانی بارش ہوئی اور شہروں میں سیلاب کی سی صورتحال پیدا ہو گئی ۔ انسانی زندگی کو ہم نے کبھی اس شدت سے ناگہانی آفات سے دوچار ہوتے نہیں دیکھا تھا۔ جنگلوں میں آگ لگ جاتی ہے اور لاکھوں ایکڑ چند دنوں میں جل کر راکھ ہو جاتے ہیں اور آبادیوں کی آبادیاں اپنا سب کچھ کھو بیٹھتی ہیں۔ مغرب کے صنعتی ممالک نے تو قوانین بنا کر اور اپنی پالیسیاں تبدیل کر کے شہروں اور دیگر آبادیوں کو فضائی آلودگی سے محفوظ رکھنے کا بندوبست کر رکھا ہے مگر تیسری دنیا کے ممالک پرانی ڈگر پر چل رہے ہیں۔ یہاں قوانین کی نہ لوگ پروا کرتے ہیں اور نہ ہماری نوکر شاہی کی استعداد ہے کہ ان پر عمل کرا سکے۔ کسی بھی دن پاکستان کے شہروں کی فضائی آلودگی کو ذرا چیک کر کے دیکھ لیں‘ دھواں چھوڑتی گاڑیاں‘ موٹر سائیکل ‘ بسیں اور ٹرک اب ہماری زندگی کا لازمی حصہ بن چکے ہیں۔ کس سے شکایت کریں کہ ہمارے حکمرانوں نے شہروں میں انگریز دور کے ٹرام اور ریل کے راستوں پر بھی قبضے کرا رکھے ہیں۔ کراچی میں ان کی بحالی‘ مخصوص سیاسی حکمران خاندان کے بار بار حکومت میں آنے کے باوجود نہیں ہو سکی۔ کچھ کا خیال ہے کہ ان کا آنا جانا ہی تو اصل مسئلہ ہے۔ لاہور میں اگر آپ سردیوں میں دیکھیں تو آلودگی کے دھویں میں سانس لیتے ہیں۔ گرمیوں میں بھی یہ کم نہیں ہوتامگر درجہ حرارت زیادہ ہونے کی وجہ سے نظر نہیں آتا۔ ہم بالکل بے کس نظر آتے ہیں۔ لاہور میٹرو کے لیے ساہیوال میں درآمدی کوئلے سے چلنے والے بجلی گھر کی تعمیر جب ہو رہی تھی‘ نہ جانے کتنی آوازیں اٹھیں‘ آخر اپنا مقدر سمجھ کر خاموش ہو کر بیٹھ گئے۔
یہ بات تو درست ہے کہ عالمی سطح پہ آلودگی میں ہمارا حصہ بہت کم ہے مگر مقامی طور پر جو شہروں میں تباہی ہم مچا رہے ہیں وہ بھی تو ہمیں متاثر کر رہی ہے۔ مغرب میں متبادل انرجی ذرائع کا انقلاب آ چکا ہے اور ٹرانسپورٹ کی شعبے میں ان کے اہداف حیران کن ہیں۔ ہم ابھی سوچ رہے ہیں کہ کیا کرنا چاہیے۔ یہاں بھی تو لوگوں نے بجلی کے بلوں سے بچنے کے لیے سولر پینل چھتوں پر نصب کرنا شروع کر دیے ہیں‘ لیکن یہ زیادہ تر متوسط طبقہ ہے۔دیہات میں ایک حیران کن تبدیلی ہم نے سولر ٹیوب ویلز کی صورت میں دیکھی ہے اور یہ سب کچھ گزشتہ 10 برسوں میں ہوا ہے۔ ہمارے ہاں متبادل اور قابلِ تجدید ذرائع پر کام کی رفتار وہی ہے جو سیاسی خاندانوں کی جمہوریت میں رہی ہے۔ کسی میں بصیرت ہوتی‘ کہیں توجہ کا ارتکاز ہوتا اور جیبیں گرم کرنے کا سیاسی کلچر نہ ہوتا تو ہم اپنی زیادہ تر بجلی پانی کے ذرائع سے پیدا کر رہے ہوتے۔ اجتماعی معاشی خودکشی کی مثالیں تو بہت ہیں مگر کالا باغ ڈیم پر سیاست بازی سرفہرست ہے۔
ماحولیات ہم کاشتکاروں کے لیے انتہائی اہم موضوع ہے کہ فصلیں بونے میں بہت سرمایہ کاری کرنا پڑتی ہے۔ اگر بیماریوں کا شکار ہو جائیں‘ سیلاب آ جائیں اور سردی‘ گرمی کا توازن نہ رہے تو سب کچھ ضائع ہو جاتا ہے۔ ہمارے آبائی علاقے میں اس سال سرسوں کی فصل مکمل تباہ ہو گئی کہ سردی ضرورت سے زیادہ پڑی۔ آموں کے باغوں سے جو امیدیں لگا رکھی تھیں‘ فصل کی حالت دیکھ کر ہم صرف آہیں بھر سکتے ہیں۔ سردی کی شدت اور دورانیہ صرف تین ہفتے بڑھنے سے درختوں پر لگے پھول‘ پھل میں تبدیل نہ ہو سکے۔ ہم کن کن مسائل کی بات کریں کہ ان میں اکثر ایسے ہی جن کا حل دنیا نے ڈھونڈ لیا ہے اور وہ ممالک صبر اور استقامت کے ساتھ آگے بڑھ رہے ہیں۔ نہ صرف دنیا کے دیگر ممالک میں جنگلات کی حفاظت ہو رہی ہے بلکہ جہاں کہیں ممکن ہے‘ مزید درخت لگائے جا رہے ہیں۔ کبھی اپنے جنگلات کے بارے میں موقع ملے تو تفصیل سے لکھیں گے‘ بلکہ پہلے جا کر ان کا مشاہدہ کرنا ضروری ہے۔ جو خبریں سن رکھی ہیں‘ وہ دلخراش ہیں۔ خانیوال سے جب رات کو ٹرین گزرتی تھی اور کچھ دیر کے لیے کھڑکیوں سے ٹھنڈی ہوا کے جھونکے آتے تھے تو پتا چلتا تھا کہ اب ہم خانیوال سے گزر رہے ہیں۔ جو ہم نے سرکاری محکمے بنا رکھے‘ وہ جنگلات کی حفاظت کے بجائے اس کی چوری میں ہاتھ رنگنے لگے۔ آزاد ملک میں آزادی ہو تو ایسی کے سب کچھ اُٹھا کے گھر لے جائیں اور کوئی آپ سے سوال نہ کر سکے۔ کوئی ایسا شعبہ نہیں جہاں ہمیں ایسی بے حسی کا احساس نہ ہوتا ہو۔ جوابدہی‘ احتساب اور قانون کی حکمرانی کی ہم بار بار بات کرتے ہیں مگر وہی بے بسی ہمارا مقدر بنی ہوتی ہے۔