اداریہ
WhatsApp: 0344 4450229

آئی پی پیز ‘ وبالِ معیشت

نجی بجلی گھروں (آئی پی پیز) کے ساتھ معاہدے بلامبالغہ ملکی معیشت کے لیے وبال بن چکے ہیں۔ ان معاہدوں پر کئی سوالیہ نشان ہیں‘ مثال کے طور پر پاکستان میں لگنے والے بجلی گھروں اور اس خطے کے دیگر ممالک میں لگنے والے انہی جیسے بجلی گھروں کی بنیادی لاگت میں پایا جانے والا فرق۔ علاوہ ازیں ان نجی بجلی گھروں کے ساتھ کیے گئے معاہدوں کی عجیب و غریب شرائط ‘ جن میں ہر لحاظ سے نجی کمپنیوں کے مفادات کا تحفظ تو کیا گیا ہے مگر ملکی مفادات سے شدید غفلت نظر آتی ہے۔بڑھتا ہواگردشی قرضہ‘ جس کے ایما پر بجلی کی قیمتوں میں بے حساب اضافہ کیا جا چکا ہے‘ اس کی ایک مثال ہے۔گردشی قرضے اور ایندھن کی قیمت کے نام پر پچھلے دو سال کے دوران بجلی کی قیمت میں جو اضافہ کیا گیا ہے اس نے بجلی مہنگی کرنے کے پچھلے پچاس سالہ ریکارڈ توڑ دیے ہیں ‘ مگر گردشی قرضہ شیطان کی آنت بن چکا ہے۔ اس کے باوجود کہ بجلی کے نرخوں میں کئی گنا اضافہ کیا جاچکا ہے مگر گردشی قرضے کا حجم بدستور بڑھتا چلا جارہا ہے۔ گردشی قرضے میں سب سے بڑا حصہ کپیسٹی پیمنٹ کا ہے ۔اس وقت گردشی قرضہ 2300 ارب روپے کے قریب ہے تو اس میں کپیسٹی پیمنٹس کا حجم 2000 ارب روپے سے زیادہ ہے۔یہ وہ رقم ہے جو بجلی گھروں کو اُن کی زائد مگر ناقابلِ استعمال پیداوار کی مد میں ادا کی جاتی ہے اور بجلی کے نرخوں میں اس وقت سب سے بڑا حصہ اسی کا ہے۔ وزیر توانائی اویس لغاری کے مطابق اس وقت بجلی کی پیداواری لاگت آٹھ سے دس روپے اور ترسیلی نظام کے چارجز فی یونٹ ڈیڑھ سے دو روپے ہیں‘ جبکہ تقسیم کار کمپنیوں کے اخراجات فی یونٹ پانچ روپے ہیں‘ مگرکیپسٹی چارجزفی یونٹ 18 روپے پڑتے ہیں ۔ یعنی بجلی کی پیداوار‘ ترسیل اور تقسیم کے مجموعی اخراجات تقریباً 17 روپے ہیں اور کپیسٹی چارجز 18 روپے۔ کپیسٹی چارجز زائد پیداوار‘ جو استعمال نہ ہو رہی ہو ‘ اُس پر عائد ہوتے ہیں‘ مگر یہاں نجی بجلی گھر اپنی کپیسٹی سے خاصی کم پیداوار پر بھی کپیسٹی پیمنٹ 100 فیصد پیداوار کی وصول کررہے ہیں۔ کوئی بھی نجی پاور یونٹ سو فیصد کپیسٹی پر نہیں چلایا جارہا۔ زیادہ تر 30سے 50فیصد کپیسٹی پر چلائے جا رہے ہیں مگر کپیسٹی چارجز سو فیصد ۔ ملک عزیز ایسے ہی تو اس خطے میں سب سے مہنگی بجلی پیداکرنے والا ملک نہیں بن گیا‘ جہاں گھریلو صارفین کو 60روپے اور کمرشل صارفین کو 80 روپے فی یونٹ بجلی مل رہی ہے جبکہ صنعتی بجلی کے نرخ بھی علاقائی اوسط سے دوگنا زیادہ ہیں۔اس وقت بھارت میں ٹیکسٹائل سیکٹر کے لیے بجلی کے نرخ 6 سینٹ‘ بنگلہ دیش میں 8.6 سینٹ اور ویتنام میں 7.2 سینٹ فی یونٹ ہیں مگر پاکستان میں تقریباً 17 سینٹ فی یونٹ۔ یہ سب اُن عاقب نااندیش معاہدوں کی دین ہے جو اس ملک عزیز میں نجی بجلی گھروں کے ساتھ کیے گئے۔ ان معاہدوں میں جس طرح عوامی مفادات کو یکسر نظر انداز کیا گیا یہ اب کسی سے ڈھکا چھپا نہیں اور ان معاہدوں کی بے رحم شرائط کے ہاتھوں ملکی معیشت دم توڑ رہی ہے۔حیرت ہے کہ آئی پی پیز کی پیداوار 50 فیصد سے بھی کم ہے مگر انہیں کپیسٹی پیمنٹ کے نام پر ادائیگی 100 فیصد پیداوار کی ہورہی ہے۔ اس سلسلے میں زیادہ استیصال پچھلے دس برس کے دوران ہوا۔ ایک رپورٹ کے مطابق 2013 ء میں کپیسٹی پیمنٹ 185 ارب روپے تھی مگر رواں برس یہ 2010 ارب روپے تک پہنچ چکی ہے۔ اس کے لیے پچھلے دس برس کے دوران لگنے والے بجلی گھروں کا ’’شکریہ‘‘ ادا کر ناچاہیے جن کے ساتھ ایسی حیران کن بلکہ تباہ کن شرائط کے ساتھ معاہدے کیے گئے کہ دنیا بھر کے مقابلے میں پیداواری لاگت بھی کئی گنا زیادہ رکھی گئی اور کپیسٹی پیمنٹ بھی۔ سونے پہ سہاگہ یہ کہ بجلی گھر اپنی استعداد سے نصف بجلی بھی پیدا کرے تو اس کی جانب سے پوری بجلی ہی گنی جائے گی اور اسی حساب سے ادائیگی ہو گی۔ ایسی انوکھی سودا بازی کی دوسری مثال ڈھونڈے سے نہیں ملتی۔ کہنے والے تو یہاں تک کہہ رہے ہیں کہ ہم سے تو بہتر معاہدے طالبان نے کیے ہیں ‘ جبھی تو افغانستان میں بجلی سستی اور پاکستان میں مہنگی ہے۔اس صورتحال میں معیشت کی نمو کا امکان نہ ہونے کے برابر ہے۔توانائی ترقی کا بنیادی عنصر ہے۔ ترقی کی رفتار بڑھانے کے لیے توانائی کا سستا ہونا ضروری ہے؛ موجودہ حالات میں یہ آئی پی پیز معاہدوں پر نظر ثانی کے بغیر ممکن نہیں؛چنانچہ کپیسٹی پیمنٹس سمیت نجی بجلی گھروں کے معاہدوں پر جامع نظر ثانی کی ضرورت ہے۔آئی پی پیز کے تھرڈ پارٹی فرانزک آڈٹ کرانا ہوں گے‘ اوور انوائسنگ پر زیرو ٹالرنس پالیسی اختیار کرنا ہو گی‘ ایندھن کے معیار کی کڑی نگرانی کی جائے ‘ ناقص ایندھن استعمال کرنے‘ ایندھن کی لاگت اور پیداواری اخراجات میں ڈنڈی مارنے والی پاور کمپنیوں کے خلاف سخت اقدامات کیے جائیں۔ یہ اقدامات ملکی معیشت اور صارفین کے مفادات کے تحفظ کے لیے ناگزیر ہیں ۔ ملک کا گھریلو صارف طبقہ لہو کے گھونٹ پی کر اپنا بل بھر رہا ہے ‘خواہ اسے بچوں کی خوراک کی تخفیف کرنا پڑے ‘ اندوختہ صرف کرے یا ادھار اٹھائے‘ مگرکب تک۔ کہتے ہیں آخری تنکا اونٹ کی کمر توڑتا ہے۔ حکمرانوں کو معاصر دنیا کے حالات و واقعات سے عبرت حاصل کرنی چاہیے۔ 

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں