یوم آزادی مبارک!
آج قیامِ پاکستان کو 77 سال مکمل ہو گئے ہیں۔ یہ موقع مسرت وانبساط کا بھی ہے اور ایک لمحۂ فکریہ بھی۔ ایک ایسا ملک جس کے قیام کے وقت ایک طبقے کا خیال تھا کہ یہ نوازئیدہ ملک چند برس بھی قائم نہیں رہ سکے گا اور دوبارہ ہندوستان سے الحاق کا متمنی ہو گا‘ آج اپنی قومی زندگی کے 77 سال کامیابی سے مکمل کر چکا ہے تو یقینا یہ ایک بڑی کامیابی ہے‘ تاہم یہ گھڑی خود احتسابی کی بھی ہے۔ اس وقت جو سب سے بڑا سوال ہمیں درپیش ہے وہ یہ کہ کیا تحریکِ آزادی کا مقصد محض ایک آزاد مملکت کا حصول تھا؟ اور کیا یہ ملک واقعتاً اُس خواب کی تعبیر ہے جو بانیانِ پاکستان نے دیکھا تھا اور جس کی تعبیر کی چاہ میں لاکھوں افراد نے اپنے جان و مال کی قربانی دی تھی؟ یقینا نہیں! جس مقصد کے تحت ایک نئے ملک کے قیام کی جدوجہد شروع ہوئی تھی ہم اس کا عشرِ عشیر بھی نہیں پا سکے۔ افلاس‘ جہالت ‘ بے ہنگم آبادی‘ عدم منصوبہ بندی اور بے سمت سفر کے باعث ہم اپنی منزل تو کجا‘ نشانِ منزل سے بھی کوسوں دور ہیں۔ یقینا مشکلات ہیں‘ مگر ان مشکلات کے باوجود امید کے چراغ بھی روشن ہیں۔ یومِ آزادی کا یہ پُرمسرت موقع ہمیں اپنا محاسبہ کرنے کی دعوت دیتا ہے کہ پون صدی سے زائد کے اس قومی سفر میں بطور ریاست اور بطور قوم ہماری کارکردگی کیسی رہی۔ پاکستان بے بہا معدنی وسائل سے مالا مال ہے اور اس کی جغرافیائی حیثیت بھی کسی غیر معمولی اثاثے سے کم نہیں ہے۔ جنوبی و وسطی ایشیا کے سنگم پر واقع یہ ملک ازمنہ قدیم میں بھی ایک بڑی تجارتی گزر گاہ رہا ہے جبکہ اس کی سونا اگلتی زمینوں کی زرخیزی پورے خطے کے لیے قابلِ رشک رہی ہے۔ دستیاب وسائل‘ کثیر افرادی قوت اور قدرتی جغرافیہ وطنِ عزیز کو ایک مضبوط پیداواری ملک بناتا ہے‘ تاہم ترقی کے اشاریوں کو دیکھیں تو وہ تسلی بخش نہیں ہیں۔ دورِ جدید میں ایک مضبوط و محفوظ ریاست کا تصور مستحکم اور نمو پذیر معیشت‘ خلائی میدان میں سبقت‘ سائنس و ٹیکنالوجی کی ترقی اور دستیاب وسائل سے بھرپور استفادہ سمیت مختلف النوع شعبوں سے جڑا ہوا ہے۔ آج ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ ان شعبوں میں ہم کہاں کھڑے ہیں۔ خوردنی اشیا اور ضروری ادویات جیسے بنیادی معاملات میں بھی ہم دنیا کے دست نگر بن چکے ہیں۔ ایسا ملک جو پورے خطے کی غذائی ضروریات کو پورا کر سکتا ہے‘ گندم اور پیاز ٹماٹر جیسی بنیادی اجناس درآمد کرنے پر کیوں مجبور ہو جاتا ہے؟ آبادی کے لحاظ سے پاکستان دنیا کا پانچواں بڑا ملک ہے مگر اس کی قومی پیداوار کی نمو گزشتہ مالی سال محض 2.38 فیصد رہی جو بڑھتی آبادی کے تقاضوں کی مناسبت سے قطعی ناکافی ہے۔ انسانی ترقی کے انڈیکس میں پاکستان 193 ممالک کی فہرست میں 164ویں نمبر پر کھڑا ہے۔ پاکستان کا پاسپورٹ دنیا کے کمزور ترین پاسپورٹس میں سے ایک ہے۔ دو کروڑ 60 لاکھ سے زائد بچے ملک میں تعلیم سے یکسر محروم ہیں جبکہ سکول جانے والے بچوں میں ڈراپ آئوٹ کی شرح خطے میں سب سے زیادہ ہے۔ رہن سہن اور طبی سہولتوں کا معیار ناگفتہ بہ ہے۔ معاشی طور پر ہم ایک ایسی قوم متصور ہوتے ہیں جو داخلی وسائل سے ملک چلانے کی متحمل نہیں اور اپنی معیشت چلانے کے لیے بھی بیرونی امداد کی طلبگار ہے۔ مگر دوسری جانب یہ بھی حقیقت ہے کہ اس قومی سفر میں ہم نے کئی سنگِ میل عبور کیے ہیں‘ مثلاً ایٹمی طاقت کے حصول سے اپنے دفاع کو مضبوط بنایا اور عالمی امن کے لیے لازوال کردار ادا کیا۔ حقیقت یہ ہے کہ عوام حکومت اور ریاست‘ دونوں کی ترجیح کبھی نہیں رہے۔ وہ ملک جس نے ایٹم بم بنا کر دنیا کو حیران کر ڈالا‘ آج بھی اس ملک میں شہری بجلی اور صاف پانی سمیت ضروریاتِ زندگی کے حصول کے لیے سرگرداں ہے۔ کیا اب بھی یہ سوچنے کا وقت نہیں آیا کہ تئیس سال بعد‘ جب ہم آزادی کی صد سالہ تقریب منا رہے ہوں گے‘ اس وقت ہم خود کو کہاں دیکھتے ہیں۔ اگر ہماری چال ڈھال اور رفتار کا عالم یہی رہا تو گزشتہ تئیس سالوں کی اوسط سے ہم اگلے تئیس برسوں کا بخوبی اندازہ کر سکتے ہیں۔ اس حوالے سے یہ بھی ذہن نشین رہنا چاہیے کہ یہ ایسی مملکت کا معاملہ ہے جس کی شرحِ پیدائش خطے میں سب سے زیادہ ہے اور ہر سال آبادی میں 55 لاکھ سے زائد افراد کا اضافہ ہو رہا ہے۔ لہٰذا یہ کہنا بے جا نہیں ہو گا کہ ہمارے مسائل کا پہاڑ‘ جو ہر دن بڑھتا جا رہا ہے‘ اگلی دو دہائیوں میں ناقابلِ عبور ہو چکا ہو گا۔ یہ حقیقت دہرانے کی اب قطعی ضرورت نہیں کہ پاکستان کے ساتھ اپنے قومی سفر کا آغاز کرنے والے دیگر ممالک ترقی کے سفر میں کہاں کھڑے ہیں۔ اس دوڑ میں ہم اب اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ جہاں ہمارا مقابلہ علاقائی یا دیگر ممالک سے نہیں بلکہ خود سے ہے۔ ہم خود ہی اپنے حریف ہیں۔ جب کبھی ملک میں سیاسی استحکام کا ماحول پیدا ہوا اور صنعتی ترقی اور معاشی پیداوار میں نمایاں تیزی نظر آئی تو ہماری افتاں و خیزاں طبیعت نے ہمیں مزید پیچھے دھکیل دیا۔ پون صدی سے ہم دائرے کے سفر میں پھنسے ہوئے ہیں۔ ترقی کی منازل طے کرنا تو دور‘ ابھی تک تو اس سفر کا آغاز بھی نہیں ہو سکا۔ اس سفر کا آغاز اسی صورت ہوگا جب اپنی منزل کا واضح تعین کر کے اس سمت قدم بڑھائیں گے۔ آئینِ پاکستان کی صورت میں ہمارے پاس قومی ترقی کے رہنما اصولوں کی ایک گائیڈ بُک ہے جو ملک کو جمہوری ‘ اسلامی فلاحی ریاست بنانے کی منزل کا تعین کرتی ہے ۔ ہمارے حکمرانوں پر یہ ذمہ داری عائد کی گئی ہے کہ وہ آئین کے ان تقاضوں پر عمل درآمد یقینی بنائیں اور اس مقصد کے لیے باہمی اختلافات سے بلند ہو کر قومی مفادات کو مد نظر رکھیں۔ اگر عزم کی بات کریں تو اس اعتبار سے ہماری قوم بظاہر ناممکن نظر آنے والے کاموں کو ممکن بناکر دنیا کو بارہا حیران کر چکی ہے۔ گھاس کھا کر ایٹم بم بنانے کا اعلان ابتداً کارِ محال دکھائی دیتا تھا مگر اپنے عزم و جنون سے پوری قوم نے یکجان ہو کر اسے ممکن کر دکھایا۔ اسی طرح حالیہ دنوں میں اولمپک گولڈ میڈلسٹ ارشد ندیم کی مثال ہمارے سامنے ہے‘ جنہوں نے نہایت محدود وسائل میں نہ صرف ملک و قوم کا سر فخر سے بلند کیا بلکہ ایک نیا ریکارڈ قائم کر کے پوری دنیا پر پاکستانی قوم کی قابلیت و صلاحیت کی دھاک بھی بٹھا دی۔ آج کا دن تجدیدِ عہد کا دن تو ہے ہی مگر اس عزم کے اعادے کا بھی دن ہے کہ ہم اپنی بھرپور توانائیاں ملک و قوم کی بہتری میں صرف کریں گے۔ آج کے دن ہماری نظر ملینیم جوبلی کے اہداف پر ہونی چاہیے اور عہد یہ ہونا چاہیے کہ پون صدی سے زائد پہ محیط قومی زندگی میں جو غلطیاں کی گئیں‘ ان کا اعادہ نہیں ہو گا‘ اس سفر میں جو کمی رہ گئی‘ اسے اگلے تئیس برس میں بہتر منصوبہ بندی اور بھرپور عزم و خلوص کے ساتھ پورا کرنے کی سعی کی جائے گی تا کہ پاکستان اپنی ملینیم جوبلی پر آج کی نسبت بہت بہتر مقام پر کھڑا ہو۔