اداریہ
WhatsApp: 0344 4450229

قومی مکالمے کا یجنڈا

سیاسی جماعتوں میں سلسلہ جنبانی ہر لحاظ سے قابلِ تحسین ہے ۔ ملکِ عزیزجن بحرانوں میں ہے پچھلے کئی سالوں کی سیاسی بے چینی اس کی ایک بڑی وجہ ہے۔ سیاسی انتشار ہو گا تو ملکی مفاد کے کئی پہلو نظر انداز ہو ئے بغیر نہیں رہیں گے۔ جب حزبِ اختلاف کی ضد یہ ہو کہ اس نے ہر صورت حکومتی عزائم‘ اقدامات اور منصوبوں کو ہدف بنانا ہے اور حکومت کو اپوزیشن کے دیدہ نادیدہ حملوں سے اپنے بچاؤ کا خطرہ لاحق ہو تو ملکی اور قومی مفادا ت کے بجائے حکومتیں اپنے بچاؤ کا سوچتی ہیں۔ ایسے میں کچھ ایسے فیصلے ہو جانا جو وقت کے تقاضوں کے منافی ہوں بعید از قیاس نہیں۔ صرف فیصلوں کی بات نہیں سیاسی بیانیے میں بھی بہت کچھ ایسا در آتا ہے جو فی الحقیقت ملک اور عوام کے فائدے میں نہیں ہوتا۔ اس صورتحال کا صرف ایک ہی حل ہے کہ سیاسی نفرت اور کینہ توزی کو ختم کیا جائے۔ نظری اختلافات رہیں گے مگر ذاتی عناد کو ختم کرنا ہو گا۔ اگر کوئی دھڑا یہ سمجھتا ہے کہ اس سے اس کاقد چھوٹا ہو گا تو یہ غلط فہمی بے بنیاد ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ عوام جب ملکی حالات اور بڑے بڑے چیلنجز کو دیکھتے ہیں تو انہیں اس نتیجے پر پہنچنے میں کوئی دقت نہیں ہوتی کہ یہ سب سیاسی رہنماؤں کا کیا دھرا ہے۔ یہ ہو سکتا ہے کہ عوام کا ایک طبقہ اس کی ذمہ داری ایک جماعت پر ڈالتا ہو اور دوسرا دوسری پر مگر ایسا نہیں ہے کہ عوامی نظروں میں سیاسی جماعتیں مکمل بے قصور ہیں؛چنانچہ یہ سمجھنا کہ کسی ایک سیاسی دھڑے کی جانب سے ڈھیل اور لچک کے مظاہرے کو عوام اس کی کمزوری پر محمول کریں گے ‘ یہ مکمل خام خیالی ہے۔ زیادہ امکان یہ ہے کہ ایسا کرنے والی سیاسی جماعت عوام کی نظر میں فکری بلوغت کی حامل اور حالات کے تقاضوں سے ہم آہنگ قرار پائے۔ اس لیے سیاسی جماعتوں کو اس خدشے سے بے فکر ہو کر ایک دوسرے کی جانب زیتون کی شاخ بڑھانی چاہیے ۔ یہی وقت کا تقاضا ہے کیونکہ ملک عزیز کے چیلنجز بڑے سنجیدہ اور ان سے نمٹنے کے لیے وقت کم ہے۔چیلنجز کی نوعیت سیاسی اور معاشی بھی ہے اور سکیورٹی بھی۔ دہشت گرد اندر اور باہر سے پاکستان پر حملہ آور ہیں‘ ایسے میں پہلی ترجیح ان کے خطرے سے نمٹنا ہونی چاہیے ‘ جبکہ معاشی سنگینی کا جو عالم ہے اسے دہرانے کی ضرورت ہی نہیں۔قومی آمدنی اور اخراجات میں بے پناہ تفاوت ہے اور معاشی استحکام کا امکان دکھائی نہیں دیتا۔ معاشی استحکام مرحلہ وار عمل ہے‘ یہ ہتھیلی پر سرسوں جمانے والا کام نہیں۔ یہ ملکی معاملات میں استحکام کا تقاضا کرتا ہے جبکہ ہمارے ہاں سیاسی اور حکومتی معاملات میں استحکام کا کوئی شائبہ نہیں۔ ایسے میں معیشت کے لیے پاؤں جمانا بظاہر ناممکن سی بات ہے۔ سیاسی قیادت کو اس حقیقت کا ادراک اسی صورت ہو گا جب اسے ڈھنگ سے ایک ساتھ بیٹھنے کا موقع ملے مگر ہمارے ہاں پچھلے کئی سال سے ایسا نہیں ہو سکا؛چنانچہ ان حالات کو اسی ٹکراؤ ‘ضد اور خود پسندی کا نتیجہ سمجھنا چاہیے جو ہمارے سیاسی رہنماؤں کی فطرتِ ثانیہ بن چکی ہے۔اب ضروری ہے کہ اس سے چھٹکارا حاصل کیا جائے اور ایک دوسرے کے وجود کو تسلیم کیا جائے ‘ مل کر پاکستان کے مسائل کو سمجھنے اور حل کرنے کی کوشش کی جائے۔اس تناظر میں حکومت اور پی ٹی آئی میں مذاکرات کی حالیہ خبریں‘ اگر سچ ہیں تو یہ مقامِ شکر ہے ۔ ضروری ہے کہ دونوں جانب سے اس معاملے کو قومی ذمہ داری سمجھ کر انجام دیا جائے۔ مذاکرات کی شروعات کا بہترین ماحول وہ ہوتا ہے جہاں غیر مشروط گفتگو ہو۔جب شرطیں بیچ میں آجائیں تو کئی رکاوٹیں آ پڑتی ہیں۔ حکومت اور حزبِ اختلاف کے مذاکرات اس یک نکاتی ایجنڈے پر ہونے چاہئیں کہ ملک کو در پیش چیلنجز سے نمٹنا ہے۔ ہمیں یہ ادراک ہونا چاہیے کہ ہماری کشتی منجدھار میں ہے اور کشتی کی بقا اور سلامتی سے سب سواروں کی بقا اور سلامتی مشروط ہے۔

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں