اداریہ
WhatsApp: 0344 4450229

قومی یکجہتی کے تقاضے

 آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر نے 6ستمبر کو جی ایچ کیو راولپنڈی میں یوم دفاع کی مرکزی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ قومی یکجہتی کے لیے ضروری ہے کہ سیاسی نقطہ نظر میں اختلافات کو نفرتوں میں ڈھلنے نہ دیا جائے۔ اسی تقریب  میں وزیر اعظم شہباز شریف نے تقسیم کو قومی سلامتی کے لیے خطرہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ ملک کی خاطر ذاتی مفادات اور خواہشات کو قربان کریں کہ پاکستان ہم سب کا ہے اور اس کی حفاظت‘ ترقی و خوشحالی ہم سب کی ذمہ داری ہے۔ وزیر اعظم اور آرمی چیف نے اپنے خطاب میں وقت کے اہم قومی تقاضوں کی جانب توجہ دلائی ہے۔ سیاسی نفرتوں اور کینہ توزیوں نے اس ملک کو جو نقصان پہنچایا ہے اس کی جڑیں گہریں اور اثرات دوررَس ہیں۔ سیاسی تنفر بظاہر سیاسی جماعتوں تک محدودسمجھا جاتا ہے مگر درحقیقت اس کے اثرات سماج کی اکائیوں کو بھی زہر آلود کر رہے ہیں۔ پاکستان کا معاشرہ سیاسی بنیادوں پر جتنا تقسیم ہو چکا ہے پہلے ایسا کبھی نہ تھا۔ سیاسی جماعتوں کا کام سماج کو شعور دینا اور لوگوں کو جمہوری قدروں سے آشنا کرنا ہے ‘ اگر سیاسی جماعتیں خود ہی ان اقدار کا مظاہرہ نہ کریں تو سماج کو کیا دے سکیں گی؟ ہماری سیاسی جماعتوں نے فرد کو بے بنیاد اختلاف‘ لایعنی بحث اور قوتِ برداشت سے دوری سکھائی ہے۔سیاسی جماعتوں کا کام تھا کہ لوگوں کو اصولی اختلافِ رائے اور جمہوری اقدار سے ہم آہنگ کیا جاتا‘ عوام کے آئینی حقوق یقینی بنانے کی جدوجہد سیاسی جماعتوں کی پہلی ترجیح ہوتی اور سیاسی رہنما اپنے کردار سے لوگوں کو سکھاتے کہ جذبۂ قومیت کیا چیز ہے۔ قوموں پر مشکل وقت آتے رہتے ہیں ۔ آج جو قومیں دنیا میں ترقی و خوشحالی میں مثالی ہیں ان کی تاریخ بھی چیلنجز سے بھرپور ہے اور مسلسل جدوجہد کے بعد ہی وہ اس مقام تک پہنچی ہیں۔ اس ترقی اور دنیاوی کامیابی کا کریڈٹ ان اقوام کے سیاسی دانشمندوں کو جاتا ہے کہ جنہوں نے اپنی قومی توانائیوں کو سطحی اختلافات اور اَنا کے جھگڑوں کی نذر نہیں ہونے دیا۔ ادھر ہمارا حال یہ ہے کہ ہماری سیاسی قیادت کے رویے یہ ظاہر کرتے ہیں کہ ان کی ترجیحات میں قوم اور قوم کا مستقبل کہیں نہیں۔ اس کا نتیجہ‘ قومی اور ملکی مسائل کے انبار ہیں۔ سرِدست ہمارا سب سے بڑا مسئلہ معاشی ہے جس کے اثرات نے عام وخاص کو پریشان کر رکھا ہے۔ غریب اور متوسط آدمی اگر بجلی اور گیس کے بلوں اور اشیائے ضروریہ کی قیمتوں سے گھبرا یا ہوا ہے تو صنعت کار ملک میں صنعتی امکانات کی کمی کی وجہ سے پریشان ہیں اور سرمایہ کاروں اور صنعت کاروں کی بیرونِ ملک منتقلی کی شرح میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ 2023ء کی پہلی سہ ماہی میں 3300 پاکستانی کمپنیوں نے دبئی چیمبر آف کامرس میں شمولیت اختیار کی ‘جو ایک سال پہلے کے مقابلے میں 59 فیصد زیادہ تھی۔ وہ حالات جو ملک سے سرمائے اور جوہرِ قابل کی بیرونِ ملک منتقلی کا سبب بن رہے ہیں سیاسی بے چینی ہی کا نتیجہ ہیں۔ ملک و قوم کے ان مسائل اور بحرانوں سے نمٹنا ہے تو اس کے لیے بنیاد سے کام شروع کرنا ہو گا ۔ کوئی شک نہیں کہ ان مسائل کی جڑ سیاسی ہم آہنگی اور برداشت کے فقدان میں ہے۔ اگر ہمارے سیاسی رہنما وسعتِ ظرف سے کام لیں اور ایک دوسرے کیلئے گنجائش پیدا کریں تواس پٹڑی سے اتری ہوئی گاڑی کو اپنے اصل راستے پر گامزن کرنا مشکل یا ناممکن نہیں۔ اسی سے ملک میں جمہوری استحکام ممکن ہو گا جو ملک عزیز کی پون صدی کی تاریخ میں ایک خواب ہی رہا ہے‘ اور حکومتیں چھوٹے چھوٹے اور ذاتی نوعیت کے مسائل سے اوپر اُٹھ کر کام کرنے کے قابل ہو سکیں گی۔ آج کی ترقی یافتہ اور معاشی طور پر مستحکم دنیا میں اور ہم میں جو بنیادی فرق ہے یہی ہے کہ وہاں سیاسی برداشت سے کام لینے کی روایت پائی جاتی ہے اورہمارے ہاں سیاسی اختلافات نفرت کے درجے کو پہنچے ہوئے ہیں۔

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں