اداریہ
WhatsApp: 0344 4450229

حالات اور قومی مفادات کے تقاضے

اس دوران جب داخلی‘ علاقائی اور عالمی حالات کی وجہ سے قومی سطح پر اتفاق و اتحاد کی ضرورت تھی‘ہمارے ہاں سیاسی آویزش شدت اختیار کر چکی ہے۔ آئے روز جلسہ جلوس‘ پکڑ دھکڑ‘ شاہراہوں کی بندش اور رکاوٹوں کا سلسلہ ہے اور دوسری جانب ذرائع ابلاغ پر ان رہنماؤں نے جو پانی پت کا میدان گرم کر رکھا ہے وہ اپنی مثال آپ ہے۔یہ حالات جنہوں نے دنیا کو دم بخود کر دیا ہے ہمارے سیاسی لیڈروں کی افتادِ طبع پر کوئی اثر نہیں ڈال سکے۔ بات صرف سیاستدانوں تک نہیں رہی‘ تناؤ اب سپریم کورٹ جیسے عالی مرتبت ادارے میں بھی ہے۔ قومی مفادات کے تناظر میں یہ صورتحال باعثِ تشویش ہے اور اس کے نتائج جاری کشمکش میں اضافے اور اصل اہداف سے توجہ ہٹنے کا سبب بنیں گے۔ ملک کے داخلی حالات کا تقاضا ہے کہ اس طرزِ عمل کو تبدیل کیا جائے۔ملکی معیشت کا استحکام سیاسی عدم استحکام سے جان چھڑانے سے مشروط ہے‘ اور معیشت کو پٹری پر چڑھانے کیلئے اس جاری کشمکش سے نکلنا ہو گا۔ ایسا نہ ہونے کی صورت میں معاشی استحکام کی کوششوں پر شدید اثرات ہوں گے۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ بھی دانشمندی سے کام لے اور دوسری جانب سے اگر دھاگا کھینچا جاتا ہے تو وہی کچھ لچک دکھائے۔ مگروزرا کے بیانات کو دیکھیں تو ایسا تاثر ہر گز نہیں ملتا‘یوں لگتا ہے کہ حکومت اس سیاسی تناؤ میں اپنی طرف سے کوئی کمی نہ چھوڑنے کا تہیہ کیے ہوئے ہے۔ شاید اس کی وجہ یہ اندیشہ ہو کہ ڈھیل کو حکومت کی کمزوری پر محمول کیا جائے گایا دوسرا فریق اس سے اپنی مرضی کا سیاسی فائدہ حاصل کرے گا۔ بہرحال اس ابہام سے سیاسی افراتفری روز بروز بڑھ رہی ہے۔ خیبر پختونخوا اور پنجاب کی حکومت میں الگ ٹھنی ہوئی ہے۔ ایک ایسا صوبہ جسے امن و امان کے شدید خطرات کا سامنا ہے‘ کی حکومتی مشینری سارے کام چھوڑ کر سیاسی تحریک اٹھانے کیلئے وقف ہو چکی ہے۔آئے روز جلسوں کے اعلان ہو رہے ہیں اور ہر جلسہ عوام اور گڈز ٹرانسپورٹ کیلئے کسی عذاب سے کم نہیں ہوتا۔ سڑکوں کی بندش کیلئے کنٹینرز کی پکڑ دھکڑ عروج پر ہے۔ ملک عزیز میں کنٹینر اتنے مال بر داری کے کام نہیں آ رہے جتنے سڑکیں بند کرنے کے کام آ رہے ہیں۔ سیاسی رہنماؤں کی اشتعال انگیزی اپنی مثال آپ ہے اور اس کے عوامی ذہنوں پر بڑے منفی اثرات ہیں۔ عوام کو علاقائی‘صوبائی‘ نسلی اور لسانی بنیادوں پر تقسیم کیا جارہا ہے۔ سیاستدانوں کے بیانات تو کسی وقت بھی بدل سکتے ہیں مگر عوام کے ذہنوں میں انڈیلی جانے والی نفرت دیر پا ہو گی؛ چنانچہ ضروری ہے کہ سیاسی رہنما اپنے رویوں کے نتائج اور اثرات کو سمجھیں۔یہ افسوسناک امر ہے کہ وہ آئینی ادارے جنہیں آئین کی متعین راہ اور اپنے قواعد و ضوابط کی روشنی میں چلنا ہے وہاں بھی شخصی اور نظری اختلاف زور پکڑ چکے ہیں۔ اس صورتحال کی کیسے توضیح کی جائے؟ اسے سیاسی حالات کا ردعمل سمجھا جائے یا اس تغافل کا نتیجہ جو ہمارے قومی افق پر سایہ کیے ہوئے ہے؟بہرکیف دنیا اس وقت جن حالات سے گزر رہی ہے وہ ہمیں داخلی انتشار سے بچنے کی تنبیہ کرتے ہیں‘ مگر ہمارے فیصلہ ساز ان حالات کی زبان کو سمجھنے میں غلطی کررہے ہیں۔ اس میں کیا شک ہے کہ دوسری عالمی جنگ کے بعد پہلی دفعہ دنیا میں اس وسیع پیمانے کی کشیدگی ہے۔ مشرق وسطیٰ بلا مبالغہ بارود کا ڈھیر بن چکا ہے اور آنے والے ہفتوں مہینوں میں حالات کیا رُخ اختیار کرتے ہیں کوئی کچھ نہیں کہہ سکتا۔ساری دنیا کی نظریں اس صورتحال پر ہیں‘ اگر نہیں تو ہمارے سیاسی قائدین کی نہیں‘ جنہیں اس بے یقینی کے حالات میں بھی اپنی پڑی ہوئی ہے۔ اگر داخلی تضادات اور مسائل پر قابو نہیں پایا جاتا تواس کے اثرات ان معاشی کوششوں کو بھی ناکام کر چھوڑیں گے جس کیلئے حکومت نے بڑی تگ و دو کی ہے۔ اُن خارجی خطرات کو بھی مد نظر رکھنا چاہیے جن پر توجہ دینے کے بجائے سیاسی رسہ کشی پر زور صرف کیا جا رہا ہے۔

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں