غزہ پر جارحیت کا ایک سال
آج غزہ جنگ کو ایک سال ہو گیا۔ اسرائیلی جارحیت کا یہ ایک برس کم از کم 42 ہزار فلسطینیوں کی شہادت اور غزہ کے شہری ڈھانچے کی مکمل تباہی پر منتج ہوا۔ فسطائیت کی ایسی دوسری مثال چشم فلک نے نہیں دیکھی۔ مگر اہلِ غزہ سلام کے مستحق ہیں جن کے پائے استقامت میں لغزش نہیں آئی۔ آج پاکستان سمیت کئی ملکوں میں ’’یومِ یکجہتی فلسطین‘‘ کے تحت عالمی ضمیر کو جھنجھوڑنے اور یہ باور کرانے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ مشرقِ وسطیٰ میں جنگ کی آگ کو بجھانا عالمی امن کا تقاضا ہے۔ اس میں کسی کو شک نہیں ہونا چاہیے کہ اس جنگ کا پھیلائو صرف مشرقِ وسطیٰ کیلئے نہیں عالمی امن کیلئے بھی خطرہ بن سکتا ہے۔ فلسطین کا مسئلہ سات دہائیوں سے ایک حل طلب انسانی المیے کی صورت میں اقوام متحدہ کے پلیٹ فارم پر اپنی باری کا منتظر ہے مگر اس طویل عرصے میں جمہوری اصولوں کی دعویدار عالمی برادری کا کردار فلسطینیوں کیلئے انصاف کا نقیب بننے کے بجائے صہیونی قبضہ گیری کا معاون ثابت ہوا۔ غزہ جنگ میں اسرائیل کی وحشت انگیزی کی تفصیلات دہرانے کی ضرورت نہیں مگر یہ سوال تو اٹھتا ہے کہ اگر عالمی برادری نے اپنی قراردادوں اور عالمی عدالتِ انصاف کے فیصلوں کی روشنی میں ذمہ دارانہ قدم اٹھایا ہوتا تو آج حالات مختلف ہوتے۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد اقوام متحدہ کا قیام اس امید پر ہوا تھا کہ یہ عالمی فورم اقوام عالم کے تنازعات کو پُرامن حل فراہم کر ے گا اور پائیدار عالمی امن کا محافظ ثابت ہوگا‘ مگر غزہ کی صورتحال میں بار بار یہ ثابت ہوا ہے کہ اقوام متحدہ کا یہ فورم اپنے مقاصد میں ناکام ہو چکا ہے۔ اس سال ستمبر کے وسط تک غزہ میں اسرائیلی حملوں میں اقوام متحدہ کے عملے کے 200 سے زائد ارکان ہلاک ہو چکے تھے اور اقوام متحدہ کے صحت اور خوراک کے مراکز مسلسل اسرائیلی نشانے پر ہیں۔ اسرائیل کی جانب سے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کو ناپسندیدہ شخصیت قرار دینا بھی ایسا واقعہ ہے جس کی مثال اس سے پہلے نہیں ملتی۔ یہ صورتحال اقوام متحدہ کی فعالیت پر سوالیہ نشان ہے اور عالمی طاقتوں کے لے پالک اسرائیل کی جانب سے اس عالمی ادارے کے چارٹر کی پامالی کے مترادف۔ اسرائیل کا یہ جارحانہ رویہ دنیا کے امن کیلئے غیر معمولی خطرہ ہے۔ دوسری جانب جنگ کے اس سال میں مسلم اُمہ کے اتحاد کے تصور اور ان ممالک کے سب سے بڑے فورم ’’اسلامی تعاون تنظیم‘‘ کی افادیت پر بھی سوال پیدا ہوئے ہیں۔ اقوام متحدہ اگر اسرائیلی جارحیت کے خلاف مظلوم فلسطینیوں کا تحفظ کرنے میں ناکام رہی تو مسلم ممالک بھی کوئی ایسا لائحہ عمل ترتیب نہیں دے سکے۔ قطر اور مصر کی کاوشوں سے ایک عارضی جنگ بندی عمل میں آئی مگر چند گھڑیوں کی جنگ بندی مظلوم غزہ واسیوں کے دکھوں کی تلخی کو کم نہیں کر سکی۔ درحقیقت اسرائیل نے اپنے شہریوں کو چھڑانے کے جس ایجنڈے کے تحت جنگ کا آغاز کیا تھا وہ بری طرح ناکام ہو چکا اور یہ ناکامی اسرائیلی کی بڑھتی فسطائیت سے عیاں ہے۔ ہمسایہ ممالک پر بڑھتے حملے عالمی امن کو اسرائیل سے لاحق خطرے کی نشاندہی کرتے ہیں۔ عالمی امن کو اس ابھرتے خطرے سے صرف اس طرح بچایا جا سکتا ہے کہ اسرائیلی کی بے جا طرفداری کے بجائے انصاف اور انسانی ہمدردی سے کام لیا جائے۔ اس سلسلے میں یورپ اور امریکہ کی ذمہ داری سب سے زیادہ ہے کہ ان ممالک کی پشت پناہی کے بغیر اسرائیل اپنے جارحانہ مقاصدکا دم خم نہیں رکھتا۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ تصادم کی تباہ کاریوں کے بعد بھی معاملات کو مذاکرات کی میز ہی پر حل ہونا ہوتا ہے‘ تو یہ کام کسی بڑی تباہی سے پہلے کیوں نہ کر لیا جائے؟ اس حوالے سے سب سے زیادہ ذمہ داری اقوامِ متحدہ کی ہے‘ جو عالمی امن کا ضامن ادارہ ہے۔ مشرقِ وسطیٰ سمیت پوری دنیا کا پُرامن اور پائیدار مستقبل دیرینہ تصفیوں کے حل میں مضمر ہے۔ مسئلہ فلسطین کا مستقل حل ہی دنیا کو مزید تقسیم اور عدم استحکام سے روک سکتا ہے۔