اداریہ
WhatsApp: 0344 4450229

معاشی ترقی کیلئے طویل مدتی منصوبہ بندی

وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب کا کہنا ہے کہ پاکستان کو معاشی ترقی کے لیے طویل مدتی منصوبے بنانا ہوں گے۔ وزیر خزانہ اس سے پہلے بھی کئی بار اس خیال کا اظہار کر چکے ہیں اور حقیقت بھی یہی ہے کہ معاشی ترقی راتوں رات ممکن نہیں ہوتی‘ اس کے لیے جامع منصوبہ بندی اور مسلسل کام کی ضرورت پیش آتی ہے۔ اس تصور کو عملی طور پر دیکھنا ہو تو ترقی یافتہ ممالک کو دیکھا جاسکتا ہے جن میں سے ہر ایک کی جدوجہد کی ایک طویل تاریخ ہے۔ دنیا میں مستحکم اور ترقی یافتہ معیشتوں میں نظام حکومت کا فرق تو ہو سکتا ہے مگرایک چیز جسے صفِ اول کی ساری دنیا میں قدرِ مشترک قرار دیا جاسکتا ہے وہ ان کی مسلسل محنت اور طویل مدتی منصوبہ بندی ہے۔ ہمارے ہاں یہ روایت نہیں پنپ سکی اور اس کا نتیجہ ہمارے سامنے ہے کہ ایک حکومت جو معاشی بنیادیں بھرتی ہے جب اس کا اقتدار قبل از وقت اختتام پذیر ہوتا ہے تو اس کے ساتھ ہی اس کے شروع کئے گئے منصوبے اور ترقی کی حکمت عملی بھی دھچکے کھانے لگتی ہے۔ طویل مدتی معاشی منصوبہ بندی کی ضمانت یہ ہے کہ حکومتی استحکام کو یقینی بنایا جائے۔ طویل مدتی منصوبہ بندی اور ترقی کے تعلق کو موجودہ وزیر خزانہ نے سمجھ لیا ہے‘ جو بنیادی طور پر ایک ٹیکنو کریٹ ہیں۔ کاش یہ حقیقت ہمارے سیاسی رہنما ؤں کی سمجھ میں بھی آ جاتی کہ ایک دوسرے کی ٹانگ کھینچنے اور روڑے اٹکانے میں ملکی ترقی کا کتنا نقصان ہے۔ملک عزیز اپنی پون صدی مکمل کر چکا۔ یہ عرصہ کسی ملک کے لیے ترقی کی راہ پر گامزن ہونے کے لیے کم نہیں‘ مگر ہمارے مسائل آج بھی وہیں کے وہیں ہیں۔ معیشت گرتی سنبھلتی رہتی ہے‘ قرضوں کا بوجھ قومی آمدنی کے اسی فیصد کے قریب ہے‘ کوئی اڑھائی کروڑ بچے سکول نہیں جاتے‘ یہ دنیا میں رسمی تعلیم سے محروم بچوں کی دوسری بڑی تعداد ہے۔ برآمدات کی بڑی چھلانگ لگائیں تو 30 ارب ڈالر تک پہنچتی ہیں۔ علیٰ ہذا القیاس۔ یہ ایک ایسے ملکی کی صورتحال ہے جس کے پاس بہترین موسم‘ وافر زرعی رقبہ‘ افرادی قوت‘ تعلیم یافتہ اور ہنر مند لوگ‘ معدنی وسائل اور نمایاں اہمیت کا حامل جغرافیہ ہے۔ یہ ماننا پڑے گا کہ ہماری پسماندگی ہمارے وسائل کا نہیں ہماری استعداد اور صلاحیت میں کمی کا نتیجہ ہے‘ ورنہ ایک مستحکم اور ابھرتی ہوئی معیشت کا درجہ پانا مشکل نہیں ہونا چاہیے تھا۔ ہم اس صورتحال سے نہیں نکل سکیں گے اگر صرف الزام تراشی اور موقع پرستی کی سوچ پر کاربند رہے۔ وزیر خزانہ جو آئی ایم ایف سے مزید فنڈنگ کا مطالبہ کرنے کی غرض سے حالیہ دنوں امریکی دورے پر تھے‘ نے سی پیک کے دوسرے مرحلے میں چین کے ساتھ بزنس ٹو بزنس روابط بڑھنے کی خوشخبری بھی سنائی ہے۔ سی پیک جو 2015 ء میں شروع ہوا تھا‘ کا پہلا مرحلہ تاخیر کا شکار ہوا ہے۔ تاخیر کی وجہ کچھ تو انسانی اختیار سے باہر تھی جیسا کہ کورونا کی عالمی وبا سے لمبے عرصے تک کام رکا رہا اور اگر ہوا بھی تو بہت سست روی کے ساتھ‘ مگر کچھ سیاسی رکاوٹیں بھی تھیں کہ سی پیک کے بہت سے منصوبے جنہیں کئی سال پہلے مکمل ہو جانا چاہیے تھا اب تک نامکمل پڑے ہیں جیسا کہ ایم ایل ون جسے سی پیک کا سٹرٹیجک اہمیت کا حامل منصوبہ قرار دیا جاتا ہے مگر ابھی تک اس کی راہ ہموار نہیں ہو سکی۔ اس طرح کی اور مثالیں بھی ہیں۔ ضروری ہے کہ سی پیک کے دوسرے مرحلے میں بزنس ٹو بزنس روابط کی راہ میں ایسی مشکلات نہ آنے پائیں اور ہمارے حکمران اور فیصلہ ساز قوتیں چین اور دیگر ترقی یافتہ اقوام کے فکری رویے کو بھی سمجھنے کی کوشش کریں کہ کس طرح ان ممالک نے ترقیاتی حکمت عملی کا چراغ بجھنے نہیں دیا۔ آج اگر چین دنیا کی دوسری عالمی طاقت ہے تو یہ اس جہدِ مسلسل کا نتیجہ ہے۔ ہمیں چین سے امداداور منصوبوں کے علاوہ یہ سبق حاصل کرنے کی ضرورت بھی ہے کہ معاشی ترقی کے لیے طویل مدتی منصوبہ بندی ناگزیر ہے۔

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں