اداریہ
WhatsApp: 0344 4450229

آلودگی کا المیہ

فضائی آلودگی ملک کا ایک سنجیدہ مسئلہ ہے مگر اس سے نمٹنے کے اقدامات سطحی اور عارضی نوعیت کے ہیں۔نتیجہ ہمارے سامنے ہے کہ ہوا کا معیار بدترین سطح کو پہنچ چکا ہے اور پنجاب کے وسطی علاقوں میں ماحولیاتی ایمر جنسی کے حالات پید اہو چکے ہیں۔پچھلے کئی روز سے لاہور سمیت پنجاب کے کئی وسطی اضلاع میں تعلیمی ادار ے بند کیے گئے ہیں مگر ہوا میں آلودگی کے تناسب میں اس سے کوئی بہتری نہیں آئی اور لاہور دنیا کے آلودہ ترین شہروں میں سرفہرست ہے۔ماحولیاتی المیے کے اسباب اور حقائق کو سمجھے بغیر اس سے نمٹنے کی کوششیں ہوا میں تیر چلانے کے مترادف ہیں۔ پنجاب کے منصوبہ بندی اور ترقیاتی محکمہ کے اربن یونٹ کی گزشتہ برس کی ایک رپورٹ ماحولیاتی تباہی کے بنیادی اسباب کو سمجھنے میں مدد کرتی ہے۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ لاہور کی فضائی آلودگی میں گاڑیوں کے دھویں کا حصہ 83 فیصد ہے‘ جبکہ صنعتوں کے اخراج سے 9فیصد‘ زراعت سے تقریبا ً 4فیصد اورکوڑا جلانے سے تقریباً ساڑھے تین فیصد آلودگی پیدا ہوتی ہے۔ یہ اعداد وشمار لاہور یا ملک کے دیگر بڑے شہروں میں ماحولیاتی بہتری کے اقدامات کی حکمت عملی اور منصوبہ بندی کیلئے رہنما ہونے چاہئیں۔ واضح بات ہے کہ ماحول کی خرابی میں جو جتنا بڑا حصہ دار ہے اس پر اسی قدر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ اس حساب سے ماحولیاتی بہتری یا کم از کم اس آفت جیسی صورتحال سے نمٹنے کیلئے بنیادی توجہ کا ہدف ٹرانسپورٹ کا شعبہ ہونا چاہیے۔ مگر  ہمارے ہاں خرابی کا جو جتنا بڑا سبب ہے اسے اسی قدر چشم پوشی اور رعایت حاصل ہے۔ ماحولیاتی خرابی کے دیگر اسباب پر بھی ضرور توجہ دیں مگر اربن یونٹ کی رپورٹ کی روشنی میں یہ واضح ہونا چاہیے کہ صنعتیں‘ زراعت‘ کوڑے کی آگ اور کمرشل و گھریلو سرگرمیاں مل کر بھی گاڑیوں کی آلودگی کا عشر عشیر پیدا نہیں کرتیں۔ مگر ہمارے ہاں فضائی آلودگی کی اس سب سے بڑی وجہ کو تقریباً مکمل چھوٹ حاصل ہے۔ ان دنوں جب لاہور دنیا کا آلودہ ترین شہر بن چکا ہے حکومت کی جانب سے آلودگی کے کلیدی اسباب پر کوئی توجہ نہیں۔ گاڑیوں کی تعداد کو کنٹرول کرنے‘ انجنوں کی حالت کا جائزہ لینے اورخطرناک حد تک زیادہ دھواں دینے والی گاڑیوں کا تدارک‘ ایسا کوئی بھی اقدام دکھائی نہیں دیتا۔فضائی آلودگی پر قابو پانا راتوں رات ممکن نہیں۔ یہ ایک سلسلہ وار اور مستقل عمل سے ممکن ہے اور اس کی پہل گاڑیوں کے معاملے میں جامع پالیسی اور اس پر مؤثر عمل درآمد سے ہونی چاہیے۔بصورت دیگر آلودگی کا مسئلہ جو گزشتہ دو‘ تین برس کے دوران بتدریج شدت اختیار کرتا گیا ہے‘ آنے والے چند برسوں میں لاہور جیسے بڑے شہروں کیلئے زندگی کا سب سے بڑا مسئلہ بن جائے گا۔ پچھلے چند برس کے دوران فضائی آلودگی کی شدت میں جس تیزی سے اضافہ ہوا ہے‘ اس کو دیکھتے ہوئے اگر بچاؤ کے سنجیدہ اور پائیدار اقدامات فوری طور پر شروع نہیں کیے جاتے تو آنے والے چند برس کے دوران یہ صورتحال قابو سے باہر ہوسکتی ہے۔چنانچہ گاڑیوں کے دھویں کے اخراج کو کم کرنے کیلئے جنگی بنیادوں پر کام کرنا ہو گا اور یہ کام آنے والے کئی سال بلاتعطل اور حکومت کی ترجیح اول کی حیثیت سے جاری رہناچاہیے۔ گاڑیوں کے انجنوں کی مناسب دیکھ بھال کا سرٹیفکیٹ دنیا کے ہر اس ملک میں لازمی ہے جسے اپنے ماحول اور لوگوں کی صحت کی ذرا بھی پروا ہے۔ کہنے کو ہمارے ہاں بھی فٹنس سرٹیفکیٹ کا ہونا ضروری ہے‘ مگر اس قاعدے پر جس قدر عمل ہوتا ہے یہ سبھی جانتے ہیں۔ رہی گاڑیوں کے دھویں کی بات تو یہ گویا ہمارے ہاں نارمل بات ہے اور شاذ ہی کسی گاڑی کو اس لیے روکا جاتا ہے کہ وہ دھواں زیادہ خارج کر رہی ہے۔ سمجھا جائے تو سال کے آخری مہینوں میں سموگ کی صورت میں ہم سال بھر کی انہی ماحولیاتی لاپروائیوں کی سزا بھگتتے ہیں۔

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں