احتجاج کی سیاست
پی ٹی آئی کی جانب سے ایک بار پھر اسلام آباد مارچ کی کال دی گئی ہے۔ احتجاج کا مقصد 26ویں آئینی ترمیم کا خاتمہ‘ جمہوریت اور آئین کی بحالی‘ مینڈیٹ کی واپسی اور بے گناہ سیاسی قیدیوں کی رہائی بتایا گیا ہے۔پی ٹی آئی کے مطالبات کی نوعیت سے قطع نظر اہم سوال یہ ہے کہ سیاسی جماعتوں کیلئے مطالبات منوانے کیلئے مناسب طریقہ کون سا ہے؟ سڑکوں پر قوت کا مظاہرہ کرکے بات منوانایا پارلیمانی فورمز پر جدوجہد کرنا اور اپنے جیسی دیگر سیاسی جماعتوں کے ساتھ مذاکرات میں مصروف ہونا ؟اس کے باوجود کہ احتجاج کو عوامی حق تصور کیا جاتا ہے سیاسی جماعتوں کی احتجاجی سرگرمیوں کے معاشی اور عوامی اثرات شدید ہوتے ہیں۔اس دوران جب ملک میں معاشی بحالی کے امکانات واضح ہیں اور کئی دوست ممالک کی جانب سے سرمایہ کاری کے عندیے بھی دیے گئے ہیں سیاسی ایجی ٹیشن سے ان امکانات پر منفی اثرات مرتب ہوں گے۔ احتجاج ایک جمہوری حق سہی مگر ہمارے ہاں اس کی جائز حدود کو پھلانگنے کا عمومی رواج ہے۔ دورانِ احتجاج نہ تو نجی وسرکاری املاک کا کوئی خیال کیا جاتا ہے اور نہ ہی عوامی حقوق کی پروا کی جاتی ہے۔ پچھلے کچھ عرصہ بالخصوص وسط ستمبر کے بعد سے احتجاجی سرگرمیوں میں جو اضافہ ہوا وفاقی دارالحکومت کے شہریوں نے اس سے بے حد تکلیفیں اٹھائیں‘ اب ایک اور احتجاج کی صورت میں عوام کیلئے وہی تکلیفیں عود کر آئیں گی۔ اگر سکیورٹی حالات کی بات کی جائے تو وہ بھی کسی بڑے اکٹھ کیلئے مناسب نہیں۔ ان حالات کا تقاضا تو یہ ہے کہ سیاسی جماعتوں میں ہم آہنگی نظر آئے تا کہ سکیورٹی خدشات سے نمٹنے اور معاشی امکانات کوفروغ دینے کیلئے قابلِ عمل اور متفق علیہ حکمت عملی وضع کی جا سکے مگر ہم اس کے الٹ سمت جارہے ہیں۔ ضروری ہے کہ اپوزیشن اور حکومت ‘دونوںوہی اقدامات کریں جو پاکستان کے بہترین مفاد میں ہیں۔ پی ٹی آئی کے پاس پارلیمنٹ کا فورم موجود ہے جہاں حزب اختلاف کی قیادت کا منصب اس کے پاس ہے جبکہ ایک صوبے میں اس کی حکومت بھی ہے‘ اس مضبوط پارلیمانی پوزیشن کی حامل جماعت کیلئے اپنے مطالبات کیلئے سڑکوں پر آنے کی کوئی وجہ نہیں ہونی چاہیے۔ دیکھا جائے تو سیاسی تنازعات کا حل سڑکوں پر احتجاج سے نکلتا بھی نہیں۔ سیاسی جماعتوں کیلئے بات چیت ہی وہ ذریعہ ہے جس کے نتیجہ خیز ہونے کی امید رہتی ہے۔اس روش کو چھوڑ کر سڑکوں پر احتجاج کیلئے نکلنا بے معنی ہے۔ مگر تالی ایک ہاتھ سے نہیں بجتی اور مذاکرات کی یکطرفہ خواہش بیکار جاتی ہے۔ پیشرفت اسی صورت ممکن ہو گی جب حکومت اور اپوزیشن دونوں آگے بڑھیں۔ اس سلسلے میں مناسب ہو گا کہ حکومت کی جانب سے زیتون کی شاخ بڑھائی جائے اور حزب اختلاف سے مذاکرات میں پہل کا عندیہ دیا جائے۔ کھنچے کھنچے اور تنے تنے رہنے سے حکومت اور حزب اختلاف میں بات چیت کی پیشرفت کا کوئی امکان نہیں۔ یہ صرف لچک دکھانے اورخیر سگالی کا مظاہرہ کرنے سے ہو گا۔ اب تک اس کی صرف امید ہی کی جاسکتی ہے کیونکہ بظاہر کوئی فریق بھی اپنی اَنا ترک کرنے کو تیار نظر نہیں آتا ‘ مگر یہی ان جماعتوں کے سیاسی شعور کا امتحان ہے۔ سیاسی رہنمائوں کو معاصر دنیا سے بھی کچھ سیکھنا چاہیے۔ کسی جمہوری ملک میں سیاسی مطالبات منوانے کیلئے یہ طریقہ اختیار نہیں کیا جارہاجو اس وقت ہمارے ہاں ہے۔ چند سیاسی معاملات بھی ہم ایوانوں میں سلجھا نہیں پا رہے اور طاقت کے زور پر مطالبات منوانے کے عمل کی حوصلہ افزائی کر رہے ہیں۔ سوال یہ بھی ہے کہ گزشتہ دو‘ تین برسوں میں سیاسی احتجاجوں‘ جلسوں اور دھرنوں سے کیا حاصل ہوا کہ اب ایک بار پھر احتجاجی سیاست کا سہارا لیا جارہا ہے۔ حکومت اور حزب اختلاف‘ دونوں کو سیاسی خلفشار کے خاتمے کی فکر کرنی چاہیے تاکہ ملکی معیشت کو سنبھالنے کی جو کوششیں یا سرمایہ کاری کے جو وعدے کیے گئے ہیں وہ عملی صورت اختیار کر سکیں۔