انٹرنیٹ کی بندش
اتوار کے روز ملک بھر میں انٹرنیٹ اور مختلف موبائل ایپس کی سست روی سے متعلقہ شعبے شدید متاثر ہوئے‘ تاہم حکومت کی جانب سے انٹرنیٹ اور تمام ایپس کی مکمل بحالی کا دعویٰ کیا گیا جو حقائق سے مطابقت نہیں رکھتا۔ وزیر مملکت برائے آئی ٹی کی جانب سے سیلولر ڈیٹا کی سست روی کی وجہ موبائل ٹاورز کی کمی بتائی گئی مگر حقیقت یہ ہے کہ براڈ بینڈ سروس اور موبائل ایپلی کیشنز جس سست رفتاری کا شکار ہیں‘ ان سے گمان ہوتا ہے کہ انٹرنیٹ سے متعلق حکومتی تجربات کا سلسلہ تاحال جاری ہے۔ ایک جرمن ادارے کی رپورٹ کے مطابق 2023ء میں انٹرنیٹ شٹ ڈائون سے پاکستانی معیشت کو 65 ارب روپے کا نقصان ہوا تھا جبکہ ایک آئی ٹی ادارے کی رپورٹ کے مطابق رواں سال انٹرنیٹ کی بار بار بندش سے اب تک 85 ارب روپے سے زائد کا نقصان ہو چکا ہے۔ حکومت ڈیجیٹل اکانومی کے فروغ اور انسدادِ سموگ کیلئے گھر سے کام کرنے کے رجحان کو فوقیت دے رہی ہے مگر یہ کام اسی وقت ہو سکتے ہیں جب انٹرنیٹ کی رفتار بہتر ہو۔ گزشتہ چھ‘ سات ماہ سے انٹرنیٹ مختلف مسائل کا شکار چلا آ رہا ہے‘ رہی سہی کسر سیاسی احتجاجوں نے پوری کر دی۔ وجہ جو بھی خمیازہ عوام‘ بالخصوص ڈیجیٹل شعبوں کو بھگتنا پڑا۔ حکومت کو انٹرنیٹ کی سست روی پر خود کو بری الذمہ قرار دینے کے بجائے اس کی سست رفتاری کا سراغ لگا کر اس کو درست کرنا چاہیے۔