افواہوں کی تشویش
وزارتِ داخلہ کے ایک بیان کے مطابق اسلام آباد میں پی ٹی آئی کے ہجوم کو منتشر کرنے کے لیے پولیس اور رینجرز نے جان لیوا اسلحہ استعمال نہیں کیا اور دارالحکومت کے بڑے ہسپتالوں نے قانون نافذ کرنے والے اداروں کی فائرنگ سے ہونے والی اموات کی رپورٹوں کو مسترد کیا ہے۔ پاک فوج کا بھی مظاہرین سے کوئی براہِ راست ٹکراؤ نہیں ہوا نہ ہی فوج ہجوم کو کنٹرول کرنے پر تعینات تھی۔ وفاقی وزیر اطلاعات عطا تارڑ نے بھی مظاہرین پر قانون نافذ کرنے والے اہلکاروں کی جانب سے گولی چلائے جانے کی تردید کی ہے۔ اُن کا کہنا تھا کہ ٹی وی چینلوں نے ایسا کوئی منظر نہیں دکھایا جہاں عمارتوں پر سنائپرز تعینات ہوں یا سامنے سے گولی چلائی گئی ہو۔ وفاقی وزیر اطلاعات اور وزارتِ داخلہ کی جانب سے اس وضاحت کی ضرورت محسوس کی جا رہی تھی کیونکہ سوشل میڈیا پر ہفتہ بھر سے ایک طوفان برپا تھا۔ ایسی افواہیں سماج میں انتشار‘ بے یقینی اور بدگمانی کا سبب بنتی ہیں جس کے اثرات سماجی ہم آہنگی کیلئے خوفناک ہو سکتے ہیں؛ چنانچہ ضروری ہو جاتا ہے کہ حکام افواہوں سے خبردار کرنے کیلئے جہاں تک ممکن ہو‘ جلد از جلد حقائق قوم کے سامنے پیش کریں۔ سوشل میڈیا کے پھیلاؤ کے ساتھ حکومت پر حقائق منظرعام پر لانے کی ذمہ داری مزید بڑھ جاتی ہے کیونکہ اطلاعات کے متوازی ذرائع اطلاعات کی ترسیل میں روایتی ذرائع ابلاغ جیسی ذمہ داری سے کام نہیں لیتے۔ سوشل میڈیا کا کوئی صارف ایک اخبار یا ٹی وی کی طرح خبر کو صحافتی معیار پر پرکھنے سے قاصر ہے اور اس پر مستزاد وہ جدید ٹولز جو تصویر‘ وڈیو یہاں تک کہ آواز بھی جعلی تخلیق کرتے ہیں‘ ان وسائل نے سوشل میڈیا کے عام صارف کو سوشل میڈیا کے اطلاعاتی بہاؤ میں حقیقی اور جعلی کا امتیاز کرنے میں ناکام بنا دیا ہے۔ اس صورتحال میںعوام کو حقائق سے مطلع رکھنے کی حکومتی ذمہ داری بڑھ جاتی ہے۔ سوشل میڈیا کے صارفین کو ان کی ذمہ داری سے آگاہی فراہم کرنے کی بھی اشد ضرورت ہے۔ قانون کی حکمرانی اور انفرادی احساس ذمہ داری اجاگر کرنے سے ممکن ہے کہ سوشل میڈیا صارفین میں افواہوں کو پہیے لگانے کے رجحان میں کمی آئے۔ خاص طور پر نوجوان نسل کو اس حوالے سے آگاہی فراہم کرنے کی بے حد ضرورت ہے۔ اس کیلئے سوشل میڈیا اخلاقیات کی تعلیم وتربیت پر توجہ دی جانی چاہیے۔ تعلیمی نصاب میں اس پر ترجیحی بنیادوں پر کام کرنے کی ضرورت ہے‘ جس کے حوصلہ افزا نتائج سامنے آ ئیں گے۔ پاکستان کی اکثریتی آبادی نوجوانوں پر مشتمل ہے اور آبادی کا یہ تناسب آنے والے لمبے عرصے تک اسی طرح برقرار رہے گا۔ 2024ء کی یو این ورلڈ پاپولیشن رپورٹ کے مطابق 2069ء تک پاکستان میں نوجوان آبادی میں اضافے کا رجحان برقرار رہے گا۔ یہ تخمینہ آنے والی کم از کم چار دہائیوں کیلئے ایسی پالیسیاں وضع کرنے کی ضرورت کو واضح کرتا ہے جن میں نوجوان ریاست کی ترجیح اول ہونے چاہئیں۔ ان کی تعلیم و تربیت‘ اخلاقیات‘ احساسِ ذمہ داری اور وطن سے گہری وابستگی کا احساس اسی سے مشروط ہے اور نوجوان نسل کو منفی سیاسی پروپیگنڈے سے اسی طرح بچایا جا سکتا ہے۔ اس کیلئے تعمیری نقطہ نظر اختیار کرنا ہوگا اور نوجوان نسل سے حکومت کو فاصلے کم کرنا ہوں گے۔ تعلیم وتربیت اور روزگار کے مواقع بڑھانے کیلئے ریاستی سرمایہ کاری سے یہ کام آسان ہو سکتا ہے۔ سیاسی حلقوں میں بھی ذمہ داری کا احساس پیدا ہونا چاہیے کہ ڈِس انفارمیشن اور پروپیگنڈا کو ہتھیار کے طور پر استعمال کرنا کسی سیاسی جماعت کو زیب نہیں دیتا کہ اس کا ہدف بیشک سیاسی مخالفین ہوں مگر اس کا اصل نقصان ملک کو ہوتا ہے۔ اسلام آباد میں احتجاجی جلوس کو منتشر کرنے کیلئے کی جانے والی کارروائی کے بعد شروع ہونے والی سوشل میڈیا مہم اس کا واضح ثبوت ہے۔ افواہوں کا یہ سلسلہ ملک وقوم کیلئے باعثِ تشویش ہے اور اس کو ہرصورت ختم ہونا چاہیے۔