سوشل میڈیا پروپیگنڈا
وزیر اعظم شہباز شریف نے ریاست مخالف پروپیگنڈا میں ملوث افراد کی نشاندہی کیلئے 10 رکنی ٹاسک فورس تشکیل دینے کی منظوری دی ہے جس کا کام جعلی اور گمراہ کن خبریں گھڑنے اور پھیلانے میں ملوث افراد‘ گروہوں اور تنظیموں کی نشاندہی کرنا ہو گا۔ سوشل میڈیا گمراہ کن اطلاعات کے پھیلاؤ اور سماجی بے چینی کا ایک بڑا محرک بن چکا ہے۔ پچھلے چند ماہ کا جائزہ لیا جائے تو اس دوران ایسے متعدد واقعات سامنے آئے ہیں جن میں سوشل میڈیا کے ذریعے پھیلائی گئی افواہیں پُرتشددواقعات کا سبب بنیں اور بعض سوشل میڈیا مہمات سراسر ریاست مخالف تھیں۔ یہ صورتحال قومی سلامتی اور سماجی ہم آہنگی کیلئے کسی صورت قابلِ قبول نہیں اور حکومت کی ذمہ داری ہے کہ ایسی پروپیگنڈا مہم میں شامل عناصر کے خلاف بھر پور کارروائی کی جائے۔ ان پروپیگنڈا مہمات کو قومی سلامتی کے تصور سے الگ کر کے نہیں دیکھا جا سکتا اور اس سلسلے میں ہمارے لیے دیگر ممالک کے اقدامات کی نظیر موجود ہے۔ مثال کے طور پر برطانیہ جہاں اس سال جولائی‘ اگست میں سوشل میڈیا کو نسلی فسادات پھیلانے کیلئے استعمال کیا گیا تو اسکے خلاف برطانوی ریاست نے بھر پور اور بے مثال عزم کے ساتھ کام کیا اور ملوث عناصر کے خلاف مؤثر کارروائیاں کی گئیں۔ یہ انہی کارروائیوں کا نتیجہ تھا کہ نسلی فسادات کو پھیلنے سے روکا جا سکا‘ ورنہ برطانیہ میں مسلم اور تارکین وطن آبادی کی سلامتی کیلئے شدید خطرات پیدا ہو چکے تھے۔ پاکستان کو بھی سوشل میڈیا کے ذریعے سنگین نوعیت کی پروپیگنڈا مہمات کا سامنا ہے مگر اس کے خلاف اقدامات کی حکمت عملی غیر مؤثر ہے؛ چنانچہ آج تک کوئی تدبیر اس کی راہ روکنے میں کامیاب نظر نہیں آتی۔ انٹرنیٹ کو سست کر دینے یا سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر پابندی لگانے سے اس مسئلے پر قابو پانے میں کوئی مدد نہیں مل رہی۔ اس لیے ضروری ہے کہ حکومت اس بار حکمت عملی تبدیل کر کے دیکھے اور پابندیاں عائد کرنے کے بجائے مؤثر قانون سازی اور قوانین پر عمل درآمد کے ذریعے سوشل میڈیا کے استعمال کو قانونی دائرے میں لایا جائے۔ پابندیاں عائد کرنے کا نتیجہ یہ ہوا ہے کہ لوگوں نے چور راستے دریافت کر لیے اور اصل مسئلہ وہیں کا وہیں ہے۔ اب مسئلہ یہ بھی ہے کہ حکومتی پابندیوں سے سائبر سپیس کے لامحدود پھیلاؤ کی حد بندی نہیں کی جا سکتی کیونکہ انٹرنیٹ زندگی کا ایک لازمی جزو بن چکا ہے۔ اگر اس پر کڑی پابندیاں بلا تفریق لگ جاتی ہیں تو اسکا اثر ان شعبو ں اور افراد پر بھی پڑتا ہے جو انٹرنیٹ کے منفی استعمال میں ملوث نہیں۔ انٹرنیٹ پر پابندی سے لوگوں کا کام‘ تعلیم اور روزگار شدید متاثر ہوتا ہے۔ انٹرنیٹ تک رسائی معاصر دنیا میں فرد کے بنیادی حقوق کے تصورات میں شامل ہے اور اس پر پابندی فرد کی آزادیوں پر پابندی کے زمرے میں آتی ہے۔ چنانچہ سوشل میڈیا کی منفی مہم سے نمٹنے کیلئے پابندیاں عائد کرنے کے بجائے سائبر سپیس پر قانون کی حکمرانی قائم کی جانی چاہیے۔ اس سلسلے میں حکومت کو قانون سازی اور قوانین پر عمل درآمد یقینی بنانے والے نظام کی تشکیل پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ شہریوں کی تربیت اور رہنمائی بھی اس ضمن میں بہت اہم ہے کہ شہریوں کو اس حوالے سے پوری طرح آگاہ ہونا چاہیے کہ وہ اپنی سوشل میڈیا سرگرمیوں کیلئے ذمہ دار ہیں۔ سوشل میڈیا کے حوالے سے ابھی تک حکومت کی توجہ بلند بانگ دعووں پر ہے‘ ایسے دعوے جن کا کھڑاک تو بہت ہے مگر ان کی افادیت کم نظر آتی ہے۔ ضروری ہے کہ پائیدار اوروقت کے تقاضوں سے ہم آہنگ اقدامات کیے جائیں۔ چونکہ یہ مسئلہ دنیا بھر کا ہے چنانچہ ہمیں دوسرے ممالک سے مثالیں اور رہنمائی مل سکتی ہے‘ سردست برطانیہ کی مثال مؤثر معلوم ہوتی ہے کہ وہاں سوشل میڈیا کے ذریعے تشدد کو ابھارا گیا تو اس سے نمٹنے کیلئے برطانوی حکومت نے کس باریکی سے کام کیا۔ ہمارے حکام کو بھی سوشل میڈیا کے منفی سرگرمیوں کا سدباب کیلئے اسی طرف جانا ہوگا۔