دہشت گردی کے خاتمے کا عزم
وزیراعظم شہباز شریف نے گزشتہ روز پاکستان نیول وار کالج لاہور میں میری ٹائم سکیورٹی ورکشاپ سے خطاب کرتے ہوئے دہشت گردی کے بڑھتے خطرات کی جانب توجہ مبذول کرائی۔ وزیراعظم کا کہنا تھا کہ دہشت گردی کے خاتمے کیلئے ہمارا عزم پختہ ہے‘ ہماری سکیورٹی فورسز دہشت گردی کے خلاف روزانہ قربانیاں دے رہی ہیں‘ دہشت گردی کو ختم کیے بغیر چین سے نہیں بیٹھیں گے۔ اگرچہ پاکستان گزشتہ دو دہائیوں سے دہشت گردی سے نبرد آزما ہے مگر 2017ء کے بعد مغربی سرحدی علاقوں میں اکا دکا کارروائیوں سے قطع نظر ملک کی مجموعی صورتحال پُرامن ہو گئی تھی۔ مگر حالیہ عرصے میں دہشت گردی کی شدت سے سکیورٹی کی صورتحال کو لاحق خطرات کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔ گزشتہ ماہ ملک بھر میں دہشت گردانہ حملوں اور جھڑپوں میں 50 شہری اور 68 سکیورٹی اہلکار شہید ہوئے۔ 571 شہریوں اور 670 سکیورٹی اہلکاروں کی دہشت گردانہ حملوں میں شہادت کے بعد رواں برس کو 2015ء کے بعد مہلک ترین سال قرار دیا جا رہا ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ اس دوران سکیورٹی فورسز کی کارروائیوں میں تیزی آئی ہے اور 2012ء کے بعد سب سے زیادہ اہلکاروں نے رواں سال فرض کی راہ میں جامِ شہادت نوش کیا مگر اس کے باوجود گزشتہ سال کی نسبت دہشت گردی کے واقعات میں 40 فیصد اضافہ ہوا۔ توجہ طلب امر یہ ہے کہ دہشت گردی کے نوے فیصد سے زائد واقعات ملک کے دو مغربی صوبوں یعنی بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں پیش آئے۔ لہٰذا اس صورتحال کو مغربی سرحدی صورتحال سے الگ کرکے دیکھنا ممکن نہیں‘ خاص طور پر اس وقت جب بیشتر کارروائیوں میں ایسے دہشت گرد عناصر ملوث پائے گئے جن کا تعلق افغانستان سے تھا۔کاؤنٹر ٹیررازم ڈپارٹمنٹ پشاور کی ایک رپورٹ کے مطابق 2023ء میں خیبر پختونخوا میں 23 خودکش حملے ہوئے اور 70 فیصد واقعات میں افغان حملہ آور ملوث تھے۔ گو کہ ضربِ عضب اور رد الفساد جیسے آپریشنز کے ذریعے افواجِ پاکستان نے مغربی سرحدی علاقوں سے دہشت گردوں کا بڑی حد تک صفایا کر دیا تھا مگر کچھ عناصر سرحد کی دوسری جانب جا چھپے تھے‘ جو اگست2021ء میں کابل پر طالبان حکومت کے قیام کے بعد دوبارہ سرگرم ہو گئے اور پاکستانی سرحدی علاقوں کو نشانہ بنانے لگے۔ جہاں تک دفاع کی بات ہے تو پاکستان اپنی سرحدوں کے اندر ہر قسم کے خطرے سے بخوبی نمٹنے کی صلاحیت رکھتا ہے اور اپنی دفاعی صلاحیتوں کا اظہار بھی کر چکا مگر دہشت گردی کے مکمل خاتمے کیلئے ضروری ہے کہ دہشت گردوں کو سرحد کی دوسری جانب چھپنے کی سہولت میسر نہ ہو۔ دشوار گزار پاک افغان سرحد کو مکمل محفوظ بنانا ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے۔ لہٰذا افغانستان کو بھی یہ باور کرانا ہو گا کہ خطے میں قیامِ امن ایک مشترکہ ذمہ داری ہے اور ترقی وخوشحالی کا خواب اسی صورت تکمیل کو پہنچ سکتا ہے جب تمام فریق اپنا فرض ادا کریں۔ دوسری جانب داخلی خامیوں کا بھی گہرا جائزہ لیا جانا چاہیے۔ یہ تجزیہ ازبس ضروری ہے کہ پیغامِ پاکستان اور نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد کیوں نہیں ہو پا رہا‘ اس میں کیا رکاوٹیں درپیش ہیں۔ نیشنل ایکشن پلان میں وفاق‘ صوبوں اور سکیورٹی محکموں کو جو ذمہ داریاں سونپی گئی تھیں‘ انہیں کس حد تک پورا کیا گیا۔ صوبوں کی جانب سے پولیس اور انسدادِ دہشت گردی کے محکموں کی استعدادِ کار بڑھانے کیلئے کیے گئے اقدامات کا عمیق جائزہ بھی ضروری ہے تاکہ وہ محکمے‘ جو دہشت گردوں کے خلاف پہلی رکاوٹ ہیں‘ انہیں مضبوط تر بنایا جا سکے۔ ایک تلخ حقیقت یہ ہے کہ سیاسی خلفشار دہشت گردی جیسے اہم معاملے پر سے قومی توجہ بھٹکانے کے ساتھ ساتھ پولیس کی استعدادِ کار کو بھی متاثر کر رہا ہے۔ دہشت گردی کے خاتمے کا عزم سیاسی خلفشار کے فوری خاتمے کا بھی متقاضی ہے تاکہ دہشتگردی کے بڑھتے واقعات کے سدباب کیلئے یکسو ہو کر جامع حکمتِ عملی مرتب کی جا سکے۔