مذاکرات کی پیشکش
پاکستان اس وقت ایک ایسے سیاسی بحران کا سامنا کر رہا ہے جس کی شدت ہر گزرتے دن کے ساتھ بڑھتی جا رہی ہے۔ سیاسی بے چینی‘ ہنگامہ آرائی‘ جلسے جلوس اور احتجاجی کلچر کا دائرہ وسیع ہوتا جا رہا ہے اور اسے سمیٹنے کی کوئی کوشش ہوتی نظر نہیں آ رہی۔ اگرچہ اس بحران کے خاتمے کے راہ سب کو معلوم ہے کہ حکومت اور اپوزیشن خلوصِ دل اور نیک نیتی سے مذاکرات کی میز پر بیٹھیں تو کوئی نہ کوئی راہ نکل آئے گی مگر دونوں فریق مذاکرات سے راہِ فرار اختیار کرتے نظر آتے ہیں۔ اب پاکستان تحریک انصاف کے رہنما اور قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر عمر ایوب کی جانب سے حکومت کو مذاکرات کی آفر سے ایک امید پیدا ہوئی ہے۔ ہمارا اصل مسئلہ خود بینی و انانیت ہے‘ جس کی وجہ سے کوئی بھی فریق مذاکرات کی راہ اپنانے پر آمادہ نہیں ہوتا۔ یہی وجہ ہے کہ بات چیت کی اگر کوئی پیش رفت ہوئی بھی تو نتیجہ خیز نہ ہو سکی اور سیاسی محاذ آرائی بڑھتی چلی گئی۔ فریقین کو سمجھنا ہو گا کہ بات چیت تحمل‘ برداشت اور خیر سگالی کے جذبے کے بغیر ممکن نہیں اور اس کے لیے لچک دکھانے کی ضرورت ہوتی ہے۔ اگرچہ دونوں صفوں میں ایسے افراد موجود ہیں جو صلح جوئی اور مفاہمت سے مسائل کا حل چاہتے ہیں مگر غلبہ ان کا نظر آتا ہے جو سیاسی دھونس کا مزاج رکھتے ہیں۔ یہ رویہ مفاہمت کے فروغ میں ناقابلِ عبور رکاوٹ بن چکا ہے۔ المیہ یہ ہے کہ اس کے منفی اثرات تمام شعبہ جات کو اپنی لپیٹ میں لیے ہوئے ہیں۔ جو وقت قانون سازی پہ صرف ہونا چاہیے وہ عدالتوں اور مقدمات میں ضائع کیا جا رہا ہے۔ اگر ایک فریق ماحول کو ٹھنڈا کرنے کی کوشش کرتا ہے تو دوسرا سلگتی پر تیل چھڑک دیتا ہے جس سے تلخی دوچند ہو جاتی ہے۔ فریقین شاید اس ادراک سے بھی قاصر ہیں کہ گزشتہ ڈھائی‘ تین سال میں اس رویے سے کچھ حاصل نہیں ہو ا۔ سیاسی مسائل پارلیمانی ایوانوں میں ہی حل ہو سکتے ہیں نہ کہ ان کے لیے زور زبردستی کا راستہ اختیار کیا جائے۔ پاکستان کو اس وقت معاشی‘ سماجی اور سیاسی استحکام کی ضرورت ہے اور یہ سیاسی جماعتوں میں ہم آہنگی کے بغیر ممکن نہیں۔ حکومت اور اپوزیشن کو ایک دوسرے کی ضد نہیں‘ ایک دوسرے کا بازو بن کر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ دونوں ایک دوسرے کے حریف نہیں‘ ایک ہی گاڑی کے دو پہیے ہیں جن کے یکساں کام کرنے سے ہی ملک کی گاڑی آگے بڑھ سکتی ہے۔ اسی وجہ سے اپوزیشن کو حکومت کا عکس کہا جاتا ہے۔ اپوزیشن لیڈر نے مذاکرات کی جو آفر کی ہے‘ حکومتی حلقوں کی جانب سے اس کا سنجیدگی سے جواب دیا جانا چاہیے۔ فریقین کی جانب سے ایسے ارکان کو مذاکراتی کمیٹی میں شامل کرنا چاہیے جن کا مقصد سیاسی مفاہمت کا فروغ ہو۔ اگر آتش زیر پا عناصر کو مذاکراتی عمل میں شامل کیا گیا تو مذاکرات کی میز پر بیٹھ کر بھی مسائل کا حل نہیں نکالا جا سکے گا۔ مذاکرات کا سلسلہ پی ٹی آئی لیڈر شپ کی جانب سے نیک نیتی اور سنجیدگی کا متقاضی ہے۔ پی ٹی آئی کو قیادت کی سطح پراختلافی آرا کے مسئلے سے نمٹنا اور یکسوئی اختیار کرنا ہو گی۔ پارٹی کی سطح پر مختلف آرا کا اظہار اور قیادت کی جانب سے ایک دوسرے سے مختلف باتیں پارٹی کے نظم و ضبط پر سوالیہ نشان ثابت ہوتی ہیں۔اس طرح کسی تجویز یا پیشکش کو دوسرا فریق اہمیت نہیں دیتا۔سیاسی جماعتوں کو یہ بھی چاہیے کہ بات چیت بلا مشروط یا کم سے کم شرائط کے ساتھ شروع کرنے کی کوشش کریں۔ حکومت اور اپوزیشن کو اعتماد کے جس بحران کا سامنا ہے اس برف کے پگھلنے کے لیے فریقین کو راہ و رسم پیدا کرنی چاہیے۔ بات چیت کے مراحل کے ساتھ اعتماد میں اضافہ ہو گا اور ممکن ہے جو شرائط اس مرحلے میں پیش رفت میں رکاوٹ کا سبب بنتی نظر آتی ہیں ان پر بھی قابلِ قبول صورتحال قائم ہو جائے۔