سیاست میں مفاہمت کی پیش رفت
پاکستان تحریک انصاف اور حکومت میں مذاکرات پر اتفاق ملکی سیاست کیلئے بڑی پیش رفت ہے۔خبروں کے مطابق فریقین نے مذاکرات کیلئے پارلیمانی فورم استعمال کرنے پر اتفاق کیا ہے اور یہ عمل بغیر کسی پیشگی شرط کے آگے بڑھے گا۔ گزشتہ روز قومی اسمبلی میں تقریر کرتے ہوئے پی ٹی آئی کے چیئرمین بیرسٹر گوہر کا کہنا تھا کہ ہم ایوان سے انصاف لینا چاہتے ہیں‘ مذاکرات کیلئے کمیٹی بنا دی ہے اور کمیٹی کا مقصد یہ ہے کہ جتنی غلطیاں ہوئی ہیں ان کا ازالہ کیا جائے۔ وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے اپوزیشن کے پارلیمنٹ کے فلور پر آکر بات کرنے کو قابلِ تحسین اقدام قرار دیا۔ یہ امر خوش آئند ہے کہ سیاسی حریفوں نے مذاکرات کا عمل شروع کرنے پر اتفاق کیا۔ حکومت ہو یا اپوزیشن‘ دونوں کو عوام ہی منتخب کرتے ہیں اور دونوں کی کوشش ملک و قوم کی فلاح ہی ہونی چاہیے۔ دونوں کی حکمت عملی میں اختلاف ہو سکتاہے۔ کبھی یہ اختلاف مذاکرات‘ مکالمے اور مفاہمت سے اتفاق میں تبدیل ہو جاتا ہے اور کبھی پارلیمانی کارروائی میں ایک فریق دوسرے پر غالب آ جاتا ہے مگر حکومتی گاڑی آگے بڑھتی رہتی ہے اور کوئی تعطل نہیں آتا۔ جب ایک فریق ضد پر اڑ جائے اور مذاکرات کا عمل یکسر معطل کر دے تو جمودکی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے جو پہلے پارلیمان اور جمہوری سیاسی نظام اور پھر معیشت اور سماج کو بھی متاثر کرتی ہے۔ ہمارے ہاں یہ جمود گزشتہ لگ بھگ تین برس سے قائم ہے اور سیاسی سطح پر بلی چوہے کا ایک کھیل جاری ہے۔ ایسے حالات میں ضرورت ہوتی ہے کہ مفاہمت پسند طبقات آگے بڑھیں اور فریقین کو ایک میز پر جمع کریں‘ مگر ہماری سیاست ایسے مفاہمت پسندوں سے عاری نظر آتی ہے جو متحارب فریقوں کو یکجا کر سکیں۔ جمہوریت مفاہمانہ رویوں کو راستہ دینے کا نام ہے مگر اسے بے جا لڑائی اور مخاصمت کا ذریعہ سمجھ لیا گیا ہے۔ سیاسی طبقات شاید اس فہم سے عاری ہیں کہ سیاست میں مذاکرات ہی آگے بڑھنے کا راستہ ہوتا ہے۔ ہمارا سیاسی نظام پہلے ہی بہت منقسم ہے اور اب سیاسی تقسیم کی فالٹ لائنز سماج کو بھی انتشار کا شکار کر رہی ہیں‘ لہٰذا اس عمل کی روک تھام ازحد ضروری ہے۔ سیاسی حریف جب ایک میز پر بیٹھیں گے تو اس سے سیاسی درجہ حرارت بھی نیچے آئے گا اور مزید خرابی کا عمل رک جائے گا۔ اب اگر فریقین نے مذاکراتی عمل کا آغاز کیا ہے تو نیک نیتی کے ساتھ قومی مفاہمت کی جانب قدم بڑھانا چاہیے اور ماضی کی تلخیوں کو بیچ میں حائل نہیں ہونے دینا چاہیے۔ فریقین کو چاہیے کہ مذاکراتی عمل کو آسان اور نتیجہ خیز بنانے کیلئے ان طبقات کو بھی خاموش کرایا جائے جو ہمہ وقت اشتعال انگیزی اور الزام تراشی کرتے رہتے ہیں اور اپنی بیان بازی سے مفاہمانہ کوششوں کو سبوتاژ کر تے ہیں۔ من حیث القوم ہمیں ان عوامل پر قابو پانا ہوگا جو معاشی وسماجی ترقی کی راہ میں حائل ہیں اور جن میں سیاسی عدم استحکام سرفہرست ہے۔ ہر ریاست کو اپنے قومی سفر میں نشیب و فراز کا سامنا کرنا پڑتا ہے مگر وہی اقوام آگے بڑھ سکتی ہیں جو اپنے تجربات سے سبق سیکھ کر آگے بڑھنے کی سعی کرتی ہیں۔ 2006ء میں ان سیاسی حریفوں نے‘ جن کے نظریات میں بعد المشرقین تھا‘ مل کر میثاقِ جمہوریت کے نام سے ایک ایسی مفاہمتی دستاویز تشکیل دی تھی جس نے ملک کے جمہوری سیاسی عمل کو تقویت دی اور جو آج بھی ایک مشعل راہ ہے۔ ضرورت ہے کہ اب پھر اسی جذبے کے تحت مل کر بیٹھا جائے اور مذاکرات کو اتمامِ حجت نہیں بلکہ سیاسی جمود کو توڑنے کی واحد قابلِ عمل راہ سمجھا جائے۔ محمود خان اچکزئی اور مولانا فضل الرحمن فریقین میں مفاہمانہ کردار ادا کرنے کی پیشکش کر چکے ہیں۔ ان کی اس آفر سے فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے۔ حالات کا تقاضا ہے کہ اب سیاست میں ایک ایسے نئے دور کا آغاز کیا جائے جس میں ملکی بقا اور سیاسی و جمہوری استحکام کو اولیت حاصل ہو۔