اداریہ
WhatsApp: 0344 4450229

مذاکرات میں پس و پیش کیوں؟

حکومت اور تحریک انصاف کے مذاکرات تذبذب کا شکار ہیں۔ مذاکرات کیلئے فریقین میں اعتماد ہونا چاہئے مگر حکومت اور اپوزیشن کی جماعت میں اس کا شدید بحران پایا جاتا ہے۔ بظاہر کوئی فریق بھی دوسرے پر اعتماد کرنے کو تیار نہیں جبکہ اعتماد سازی کیلئے جو عوامل کارگر ہو سکتے ہیں حکومت اور پی ٹی آئی کے معاملے میں وہ بھی متحرک دکھائی نہیں دیتے۔چنانچہ پی ٹی آئی کی جانب سے مذاکرات کی پیشکش کے باوجود ابھی تک اس سلسلے میں کوئی پیشرفت دکھائی نہیں دیتی۔سیاسی بات چیت سیاسی مسائل کے حل اور درپیش بحران کے خاتمے کا واحد راستہ ہے اور پچھلے تین برس سے جاری بحران میں جتنا زور مل بیٹھ کر مسائل کے حل پر دیا گیا‘ کسی اور معاملے پر نہیں۔ حکومت بھی حزبِ مخالف پر زور دیتی آئی ہے کہ سیاسی مسائل کے حل کیلئے سیاسی راستہ اختیار کیا جانا چاہیے۔ اب جبکہ پی ٹی آئی مذاکرات کیلئے آمادہ دکھائی دیتی ہے تو حکومت کی جانب سے سرد مہری کا تاثر دیا جارہا ہے۔یوں مذاکرات کے ذریعے سیاسی مسائل کے حل کی خواہش پر اوس پڑ تی دکھائی دیتی ہے۔ اگر یہی صورتحال برقرار رہی تو سیاسی مسائل‘ جو پہلے ہی شدت اختیار کر چکے ہیں‘ آنے والے دنوں میں بھی اس ڈھب پر برقرار رہیں گے۔ سیاسی انتشار کے معاشی اور سماجی اثرات کو دیکھا جائے تو یہ ترقی اور استحکام کے حکومتی ایجنڈے کیلئے سب سے بڑا خطرہ ہے؛ چنانچہ بات چیت کے ذریعے اگر یہ مسائل حل ہوتے ہوں تو حکومت کو اپنے مقاصد کی تکمیل کیلئے سازگار حالات مل سکتے ہیں۔ سیاسی طور پر اس کے جو فوائد ہوں گے وہ اس کے علاوہ ہیں۔لہٰذا حکومت پر لازم ہے کہ مذاکرات کی پیشکش کیلئے عزم دکھائے۔ صرف سیاست اور معیشت ہی نہیں حالات کا تقاضا بھی یہی ہے کہ سیاسی مسائل ترجیحی بنیادوں پر‘ جلد از جلد اور پُر امن طریقے سے حل ہونے چاہئیں۔ قومی اتحاد اور سیاسی استحکام کی ضرورت یوں تو ہمیشہ ہوتی ہے مگر موجودہ حالات میں قومی یکجہتی کی ضرورت کہیں زیادہ ہے۔ جمہوریت بلا شبہ سماجی‘ ریاستی اور عوامی یکجہتی کا بہترین ذریعہ ہے‘ مگر یہ ہمیں کچھ اصول‘ قاعدے اور ضابطے بھی سکھاتی ہے۔ ضروری ہے کہ انتشار کی سیاست کو خیرباد کہہ کر جمہوری اصولوں سے رجوع کیا جائے۔ سیاسی جماعتوں کو سپورٹس مین سپرٹ کا مظاہرہ کرنا ہو گا۔پاکستان کی سیاسی جماعتوں کو آج اس کی کہیں زیادہ ضرورت ہے کہ سیاست کے میدان کے دوسرے کھلاڑیوں کیلئے احترام کا جذبہ دکھایا جائے۔ ماضی کو کھنگالتے رہیں گے تو یہ زخم کبھی مندمل نہ ہو سکیں گے۔ ماضی کو بھلانا ہی پڑتا ہے‘ اگر نئی شروعات کا ارادہ ہو۔ تاریخ ہمیں یہی بتاتی ہے کہ کامیاب وہی رہے ہیں جنہوں نے معاف کرنا اور آگے بڑھنا سیکھا۔ ہماری سیاسی جماعتوں کو بھی باہمی تعلق میں نئی شروعات کی ضرورت ہے۔پاکستان کے حالات بھی معاف کرنے اور آگے بڑھنے کا تقاضا کرتے ہیں۔ بات چیت ہی اس کا واحد حل ہے‘ مگر بات چیت خلا میں نہیں ہو سکتی‘ اس کیلئے زمین ہموار کرنا پڑتی ہے۔ حکومت اور اپوزیشن جماعت کی یہ ذمہ داری ہے کہ بات چیت کو عملی شکل دینے کیلئے مناسب ماحول بنایا جائے۔ اس کیلئے جس فریق کے ذمہ جو کچھ ہے وہ خلوص دل سے انجام دیا جائے۔ حزبِ اختلاف کو یہ تاثر رد کرنا ہو گا کہ حکومت اس کے سیاسی دباؤ کے آگے بے بس ہو کر مذاکرات کو قبول کرنے پر مجبور ہے۔ دباؤ کے ماحول میں سنجیدہ اور مخلص بات چیت نہیں ہو سکتی۔ حکومت کو بھی چاہئے کہ لیت ولعل سے کام لینے اور مذاکرات کی آفر کو فریقِ مخالف کی کمزوری ثابت کرنے کی کو شش سے گریز کیا جائے۔ کینہ توزی اور سیاسی تصادم سے کچھ حاصل ہونے والا نہیں۔ سیاسی اختلافات کی کھینچا تانی میں ملک و قوم یا سیاسی جماعتوں کا حاصل وصول کچھ نہیں۔ یہ جمہوری نظام کی بقا اور اعتبار کی بحالی کا چیلنج ہے‘ یہ سیاسی جماعتوں کی ساکھ کا امتحان ہے۔

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں