پاک امریکہ تعلقات اور پابندیاں
پاکستان کے میزائل پروگرام پر بے جا امریکی تشویش اور پابندیاں دونوں ملکوں کے تعلقات اور باہمی اعتماد پر گہرے اثرات مرتب کریں گی۔ بائیڈن انتظامیہ نے جاتے جاتے پاکستان کے میزائل پروگرام کے نگران ادارے سمیت کئی کمرشل اداروں پر مزید پابندیاں عائد کر نے کا موقع جانے نہیں دیا۔ اس سے قبل اکتوبر میں امریکی محکمہ تجارت پاکستان کے میزائل پروگرام میں معاونت کی بنا پر 16 کمپنیوں کو بلیک لسٹ میں شامل کر چکا۔ ستمبر میں بھی امریکی حکومت نے کئی پاکستانی کمپنیوں پر میزائل پروگرام کو مواد فراہم کرنے کی وجہ سے پابندیاں لگائیں‘جبکہ حال ہی میں وائٹ ہاؤس کے ایک نائب سکیورٹی ایڈوائزر نے پاکستان کے دفاعی نظام پر بے بنیاد خدشات کا اظہار کر کے پاک امریکہ تعلقات کیلئے مزید شبہات پیدا کیے ہیں۔ جان فائنر نامی اس عہدیدار کی یہ سوچ تشویشناک حد تک تعجب خیز ہے کہ پاکستان امریکہ کیلئے ’’ابھرتا ہوا خطرہ‘‘ ہے۔ حقائق اور واقعات اس کے برعکس منظر نامہ پیش کرتے ہیں کہ پاکستان نے امریکی سلامتی کے تحفظ کی خاطر اپنی جائز ذمہ داریوں سے بڑھ کر اقدامات کیے ہیں۔ اس میں دو رائے نہیں کہ سکیورٹی خطرات اور جانی و مالی نقصانات کی صورت میں پاکستان نے اس کی بھاری قیمت ادا کی ہے ۔ جہاں تک پاکستان کے دفاعی نظام کو پابندیوں کا نشانہ بنانے یا اس حوالے سے شبہات پیدا کرنے کی بات ہے تو واضح طور پر یہ پاکستان کے ساتھ امتیازی رویے کا عکاس ہے۔ خاص طور پر ان حالات میں جب امریکہ بھارت کے ساتھ دفاع اور ٹیکنالوجی کے شعبوں میں رواں برس اور گزشتہ برس کے معاہدوں کی صورت میں خاطر خواہ حد تک پیش رفت کر چکا ہے۔ گزشتہ برس بھارتی وزیر اعظم کے دورۂ امریکہ کے دوران دونوں ملکوں میں دفاعی صنعت کے تین اہم معاہدے کیے گئے جن میں جیٹ انجن ٹیکنالوجی ٹرانسفر ‘ لڑاکا اور جاسوس ڈرون طیاروں کی خریداری کا معاہدہ علاوہ ازیں جنگی بحری جہازوں کی مرمت اور تجدید اور خلائی تحقیق اور ترقی کے معاہدے شامل ہیں ۔ اس طرح امریکی تعاون سے بھارتی حربی قوت میں ہونے والا اضافہ بجا طور پر پاکستان کیلئے دفاعی چیلنجز کو بڑھاتا ہے۔ اس صورتحال میں توازن یوں قائم ہو سکتا ہے کہ امریکہ پاکستان کے ساتھ تعلقات کی روایت اور تاریخ کے پیشِ نظر دفاعی شعبے میں تعاون کو بڑھاتا۔مگر یہاں صورتحال اس کے برعکس ہے کہ امریکہ پاکستان کے ان دفاعی وسائل کا بھی شاکی ہے جو پاکستان نے خالصتاً اپنے وسائل اور صلاحیتوں سے حاصل کیے ہیں اور علاقائی ممالک اور عالمی اداروں سمیت کسی نے ان دفاعی صلاحیتوں پر کسی قسم کی شکایت یا تحفظات کا اظہار نہیں کیا۔ دفاعی شعبے میں پاکستان کے ساتھ امریکہ کا امتیازی رویہ برصغیر میں طاقت کے عدم توازن کا سبب بن سکتا ہے ۔ پاکستان ثابت کر چکا ہے کہ اس کی روایتی اور غیر روایتی دفاعی صلاحیت خالصتاً پاکستان کے دفاع کیلئے ہے اور محفوظ ترین ہاتھوں میں اور عالمی معیار کے مطابق ہے۔دفاعی صلاحیتوں پر ’’ہتھیاروں کے پھیلاؤ کے خطرے‘‘ کا الزام عائد کرکے پاکستان کو دباؤ میں لانے کی کوشش خطے میں طاقت کے عدم توازن کا باعث بنے گی۔ امریکہ کی جانب سے پاکستان کے میزائل پروگرام پر پابندیاں باعث تشویش۔ اگرچہ دونوں ملکوں کے تعلقات میں اونچ نیچ آتی رہی ہے مگر تعلقات کی نوعیت ہر دور میں اس قسم کے غیر ضروری شبہات سے دور رہی ہے جن کا اظہار امریکی نائب سکیورٹی مشیر نے کیا ہے یا بائیڈن انتظامیہ کے اقدامات جو ظاہر کرتے ہیں ۔ یہ خدشات حقائق سے بعید اور واقعات کے منافی ہیں کیونکہ پاکستان کی دفاعی پالیسی میں کبھی بھی امریکہ کو ایک دشمن ریاست کے طور پر نہیں دیکھا گیا نہ ہی دفاعی صلاحیت کو امریکی تناظر میں ترقی دی گئی ہے۔