اداریہ
WhatsApp: 0344 4450229

نیا سال اور اُڑان پاکستان

نئے سال میں ملک کو پائیدار ترقی کی راہ پر گامزن کرنے کے لیے حکومت نے ایک نئے اقتصادی منصوبے ’’اُڑان پاکستان‘‘ کا اعلان کیا ہے۔ یہ پانچ سالہ منصوبہ ہے جس کے بنیادی نکات میں ایکسپورٹ‘ ای پاکستان‘ انوائرمنٹ‘ انرجی اور ایکیوٹی شامل ہیں ۔ اس منصوبے کے جو بڑے اہداف رکھے گئے ہیں ان میں 2029ء تک برآمدات کو 63 ارب ڈالر سالانہ اور ترسیلاتِ زر کو 39.8 ارب ڈالر تک بڑھانا‘ تعلیمی بجٹ جی ڈی پی کے چار فیصد تک بڑھانا‘ شرحِ خواندگی میں اضافہ کرتے ہوئے پرائمری سکولوں میں داخلے کی شرح 64 فیصد سے بڑھا کر 72 فیصد کرنا‘ غربت کی شرح کو 21.4 فیصد سے کم کر کے 12 فیصد پر لانا‘ آئی ٹی برآمدات کو 10 ارب ڈالر سالانہ تک بڑھانا‘ فی کس آمدن 2405 ڈالر تک لے جانا اور 2035ء تک ملکی جی ڈی پی کو ایک ہزار ارب ڈالر تک لے جانے کے لیے اقدامات شامل ہیں۔ پاکستان میں پنج سالہ ترقیاتی منصوبوں کی ایک تاریخ ہے۔ 1950ء کی دہائی میں پنج سالہ ترقیاتی منصوبوں کی روایت ڈالی گئی اور ابتدا میں ان منصوبوں کو معاشی اُٹھان کے لیے ناگزیر قرار دیتے ہوئے ان کی تکمیل کے لیے بلند عزم کا اظہار کیا گیا مگر رفتہ رفتہ یہ منصوبے حکومتوں کے زبانی دعووں اور رسمی اعلانات تک محدود ہو کر رہ گئے۔ اس کی اور وجوہ بھی ہوں گی تاہم ایک بڑی وجہ ملک میں جمہوری اور سیاسی عدم استحکام بھی تھا۔ اس دور میں کسی بھی حکومت نے اپنی میعاد مکمل نہیں کی‘ لہٰذا ڈانواں ڈول حکومتوں کی جانب سے محض ترقیاتی منصوبے کا اعلان ہی کافی سمجھا جاتا تھا اور اس پر عملدرآمد کرنا یا پانچ سال کے اختتام پر پیش کردہ منصوبوں کے اہداف کی جانچ پڑتال کی زحمت کم ہی اٹھائی جاتی تھی۔ تاہم پنج سالہ منصوبوں کے ماڈل کی افادیت میں دورائے نہیں۔ یہ ایک ایسا طریقہ ہے جس کے تحت ترقیاتی اہداف کا تعین کرنے اور توجہ اور وسائل مرکوز رکھنے میں مدد مل سکتی ہے؛چنانچہ کئی علاقائی ممالک نے پاکستان کے وسط مدتی ترقیاتی ماڈل سے استفادہ کرتے ہوئے خود کو ترقی کی راہ پر گامزن کیا۔ ان میں جنوبی کوریا سر فہرست ہے۔ ترقی کے عمل کو جاری رکھنے کے لیے پنج سالہ منصوبہ ایک بہترین ماڈل ہے مگر چونکہ ہمارے ہاں ماضی میں حکومتوں کا عزم اس حوالے سے متزلزل رہا یا سیاسی حالات میں ایسے تغیرات آتے رہے کہ حکومتیں ترقیاتی اہداف پر توجہ مرکوز کرنے سے قاصر رہیں لہٰذا بیشتر ترقیاتی اہداف نامکمل رہے۔ یہی وجہ ہے کہ معاشی و سماجی ترقی کا یہ مؤثر ماڈل خانہ پُری کی حد تک رہ گیا اور 2004ء میں پنج سالہ منصوبے کی اصطلاح کو وسط مدتی ترقیاتی فریم ورک سے تبدیل کر دیا گیا۔ 1955ء سے 2004ء تک‘ نصف صدی میں پنج سالہ منصوبہ بندی میں کیا کھویا کیا پایا‘ اس کی جانچ پڑتال اور اس کا تجزیہ کم ہی کیا گیا۔ شاید ہی کبھی پنج سالہ منصوبے کی تکمیل پر اس کے حقیقی اہداف‘ حاصل‘ نامکمل اور ناکام منصوبوں کا عمیق تجزیہ کر کے ذمہ دار عوامل کا تعین کیا گیا ہو۔ جب ناکامیوں کے عوامل ہی کا تجزیہ نہیں کیا جا تا تو وہ مسائل بھی وہیں کے وہیں رہے‘ نتیجتاً بہترین ترقیاتی منصوبے بھی ثمرآور نہ ہو سکے اور ملک عزیز آج بھی انہی مسائل کی دلدل میں پھنسا ہوا ہے جن سے نصف صدی قبل نبرد آزما تھا۔ مثال کے طور پر 1955ء سے 1960ء کے پہلے پنج سالہ منصوبے کے اہم نکات زرعی ترقی‘ سائنس و ٹیکنالوجی کا فروغ‘ غربت کا خاتمہ اور اکنامک کوآرڈی نیشن کمیٹی کا قیام تھے۔ آج تیرہویں پنج سالہ منصوبے میں بھی انہی اہداف کا اعادہ‘ کچھ مختلف الفاظ میں کیا گیا ہے۔ دوسری جانب یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ ملک کی بڑھتی ہوئی آبادی ترقیاتی منصوبوں کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ ثابت ہوئی ہے۔ کثیر آبادی کی خوراک کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے زرعی شعبے کی بہتری اور پیداوار بڑھانے کے لیے انقلابی اقدامات کی ضرورت ہے ورنہ ہم خوراک کے جس بحران کا شکار ہیں‘ یہ بحران اور غذائی درآمدات کا بل یونہی بڑھتا رہے گا۔ اس حقیقت سے بھی انکار ممکن نہیں کہ ماضی میں پنج سالہ منصوبوں کی ناکامی معاشی ماڈل کی ناکامی نہیں تھی بلکہ یہ ناکامی ان منصوبوں پر عملدرآمد کے فقدان کا شاخسانہ تھی۔ پائیدار ترقی کا دنیا میں ایک ہی کامیاب ماڈل ہے اور وہ یہ کہ قلیل مدتی‘ وسط مدتی اور کثیر مدتی اہداف مقرر کیے جائیں اور ہر ہدف کی تکمیل یقینی بنانے کے لیے ہر ممکن سعی کی جائے۔ اگر کوئی ہدف مقررہ مدت میں حاصل نہیں ہوتا تو اس کی ناکامی کے اسباب اور عوامل کا تجزیہ کیا جائے تاکہ آئندہ ان کا سدباب کیا جا سکے۔ نئے سال کا آغاز اگر حکومت پائیدار ترقی کے خواب اور پنج سالہ منصوبہ بندی سے کر رہی ہے تو اس کا خیرمقدم کیا جانا چاہیے‘ مگر یہ بھی ادراک ہونا چاہیے کہ معاشی منصوبوں کی تکمیل کے لیے سیاسی استحکام اور میثاقِ معیشت کلیدی حیثیت رکھتے ہیں۔ ماضی میں معاشی ترقی کے لیے سیاسی استحکام کو درخورِ اعتنا نہیں سمجھا گیا‘ جس کا نتیجہ آج ہمارے سامنے ہے‘ کیا اب حکومت اس نئے معاشی سفر کے آغاز سے قبل اس سب سے بڑی رکاوٹ کو دور کرنے کا عزم رکھتی ہے؟

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں