اداریہ
WhatsApp: 0344 4450229

سیاسی مذاکرات کی اہمیت

پاکستان تحریک انصاف کے ساتھ مذاکرات کرنے والی حکومتی کمیٹی کے ترجمان سینیٹر عرفان صدیقی نے چیئرمین پی ٹی آئی بیرسٹر گوہر کے دو روز پہلے کے ایک بیان پر ردِعمل دیتے ہوئے سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر اپنے بیان میں کہا ہے کہ دو تین دروازوں سے بیک وقت مذاکرات نہیں چلا کرتے۔ بیرسٹر گوہر نے اگلے روز مقتدرہ کے ساتھ ملاقات کا ذکر کیا تھا اور اس ملاقات اور بات چیت کو اطمینان بخش قرار دیتے ہوئے خواہش ظاہر کی تھی کہ مذاکرات فرنٹ ڈور سے ہوں یا بیک ڈور سے مگر یہ کامیاب ہونے چاہئیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اصل اہمیت مذاکرات کی کامیابی کی ہے ‘ اس کیلئے کون سا راستہ اختیار کیا جاتا ہے یہ ضمنی معاملہ ہے۔اس لیے سیاسی جماعتوں کو اس بحث میں الجھنے کے بجائے حتمی نتیجے پر نظر رکھنی چاہیے۔ سیاسی جماعتوں کی بات چیت کیلئے اس بار بھی وہی ماڈل استعمال کیا جاسکتا ہے جو اس سے پہلے ملک میں سیاسی جماعتوں کے مذاکرات کیلئے استعمال ہوتا آیا ہے ۔ ملکی حالات و واقعات میں ایسی کوئی ڈرامائی تبدیلی واقع نہیں ہو ئی کہ نئی تاریخ رقم کیے جانے اور نئی مثالیں قائم ہونے کی توقع کی جائے۔ حکومت اور حزبِ اختلاف کی جماعت کی ذمہ داری یہ ہے کہ سیاسی مذاکراتی عمل میں سنجیدگی اور نیک نیتی سے مصروف رہیں ۔اس کیلئے اپوزیشن اور حکومت دونوں کو ایک دوسرے پر اعتماد قائم کرنا ہو گا۔ مگراب تک کے بیانات سے جو چیز جھلکتی ہے وہ باہمی اعتماد کی کمی ہے جس کے ساتھ کوئی بھی دوسرے پر بھروسا کرنے کو تیار نظر نہیں آتا۔ سیاسی فریقین کو اس صورتحال سے نکلنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ دونوں جانب کی کمیٹیوں میں سنجیدہ اور جہاں دیدہ افراد شامل ہیں انہیں کوشش کرنی چاہیے کہ مذاکراتی عمل کا سلسلہ معطل نہ ہونے دیا جائے ۔ ملک میں سیاسی انتشار قوم سے بہت بھاری قیمت وصول کر چکا ہے۔ یہی ملک میں جمہوری عدم استحکام اور پالیسیوں کے عدم تسلسل کا سبب ہے کہ ہر دور کے سیاستدان ایک دوسرے کی ٹانگ کھینچنے میں مصروف رہے ہیں۔ اگر یہ صورتحال نہ ہوتی اور جمہوری روایت کا احترام کرتے ہوئے دوسرے فریق کے مینڈیٹ کا احترام کرنے کی عادت ڈالی ہوتی تو ملک کے حالات یقینا بہت مختلف ہوتے۔ سیاسی حکومتوں پر برخاستگی کی مسلسل لٹکتی تلوار اورپاؤں تلے سے زمین کھسکنے کی فکر بے جا نہیں ہوتی کہ ہماری ملکی تاریخ میں اس روایت کی جڑیں بہت گہری ہیں۔ جمہوری شعورسے ناواقفیت اور سیاسی آداب سے دوری کا یہ رویہ تبدیل کیے بغیر سیاسی جماعتوں میں وہ اعتماد پروان نہیں چڑھ سکتا جس کی پاکستان کو اشد ضرورت ہے۔ جب تک ایسا ممکن نہیں ہوتا سیاسی معاملات دو تین دروازوں کے مرہون منت ہونے پر حیرت نہیں ہونی چاہیے۔سیاسی معاملات کو ایک دروازے کا پابند کرنے کیلئے سیاسی جماعتوں کو اپنی کایا کلپ اور تحلیلِ نفسی کی ضرورت ہے۔مگریہ جامع تبدیلی ایک ہی جست میں ممکن نہیں‘ اس کے لیے سیاسی جماعتوں کو فاصلے کم کرنے اور ایک دوسرے کو سمجھنے کی کوشش کے تسلسل کی ضرورت ہے۔ حکومت اور پی ٹی آئی کو یاد رکھنا چاہیے کہ ان کے مذاکراتی عمل سے قوم کی امیدیں وابستہ ہیں۔ یہ صرف سیاسی جماعتیں نہیں جو اس یکسانیت سے اوب چکی ہیں اور بات چیت کے ذریعے تناؤ کم کرنا چاہتی ہیں‘حقیقت میں پوری قوم ہی اس صورتحال میں نفسیاتی دباؤ میں ہے اور چاہتی ہے کہ سیاسی جھگڑوں کا حل نکلے۔ ملک کے اصل مسائل معیشت اور سکیورٹی اور سماجی ہیں اور اس کے لیے سیاسی مسائل کا حل ہونا ضرور ی ہے ۔ سیاسی جماعتوں کا قومی معاملات میں ہم آہنگ اور ایک صفحہ پر ہونا بنیادی طور پر اہم ہے اور سیاسی مذاکراتی عمل میں سنجیدگی کی ضرورت ہے۔ ایک دوسرے پر الزامات لگانے یا شبہات کا اظہارکرنے سے سیاسی ہم آہنگی کا مقصد کبھی پورا نہیں ہو سکتا۔

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں