اداریہ
WhatsApp: 0344 4450229

سرمایہ کاری اور معاشی ترقی

امریکی سرمایہ کاروں کے وفد کی جانب سے پاکستان میں کان کنی‘ قابلِ تجدید توانائی‘ بنیادی ڈھانچے کی ترقی اور ٹیکنالوجی سمیت متعدد شعبوں میں سرمایہ کاری کا اعلان ایک مثبت پیش رفت ہے۔ گزشتہ روز وزیراعظم شہباز شریف نے پاکستان میں کاروباری مواقع تلاش کرنے میں گہری دلچسپی پر امریکی سرمایہ کاروں کے وفد سے اظہارِ تشکر کرتے ہوئے غیر ملکی سرمایہ کاروں کو سازگار کاروباری ماحول اور مضبوط ادارہ جاتی حمایت کے عزم کا اعادہ کیا۔ نئی امریکی انتظامیہ کے اقتدار سنبھالنے کے بعد امریکی سرمایہ کاروں کے اس دورے کو ایک اہم سفارتی اور اقتصادی سنگ میل کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ یہ روابط براہِ راست غیر ملکی سرمایہ کاری کو راغب کرنے‘ پائیدار اقتصادی ترقی کو فروغ دینے اور پاکستان میں روزگار کے مواقع پیدا کرنے میں معاون ثابت ہوں گے۔ گزشتہ مالی سال میں فارن ڈائریکٹ انویسٹمنٹ میں تقریباً 25 فیصد اضافہ ہوا اور رواں مالی سال کی پہلی ششماہی میں براہِ راست غیر ملکی سرمایہ کاری 20 فیصد بڑھ کر 1.3 بلین ڈالر تک پہنچ گئی ہے۔ گو کہ گزرے دو‘ تین سال کے بعد اب معاشی بحالی کا سفر جاری ہے اور غیر ملکی سرمایہ کار بھی ملک میں سرمایہ کاری کی طرف راغب ہو رہے ہیں مگر ان وجوہات کا تعین بہت ضروری ہے‘ جن کی وجہ سے ماضی قریب میں مسائل کا سامنا کرنا پڑا۔ مالی سال 2018ء میں جی ڈی پی میں سرمایہ کاری کا تناسب 15.4 فیصد تھا جو گزشتہ مالی سال 11.4 فیصد رہ گیا تھا۔ اسی طرح مالی سال 2019ء سے مالی سال 2024ء تک‘ گزشتہ پانچ برس میں جی ڈی پی کی اوسط شرح نمو محض 2.5 فیصد رہی۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس دوران حقیقی آمدنی میں کوئی اضافہ نہیں ہوا۔ گزشتہ سال زراعت کے شعبے کی غیر معمولی کارکردگی کے باوجود جی ڈی پی کی شرح نمو تین فیصد سے بھی کم رہی۔ رواں مالی سال کے پہلی سہ ماہی میں ادارۂ شماریات نے جی ڈی پی کی نمو کا تخمینہ محض ایک فیصد لگایا۔ اس کی وجوہات میں ایک اہم وجہ سرمایہ کاری میں بڑی کمی ہے‘ جو عوامی اور نجی دونوں سطحات پر دیکھی گئی۔ پیداواری صلاحیت میں مناسب اضافہ نہ ہونے کی وجہ سے بھی شرح نمو سست روی کا شکار ہو گئی جبکہ بجلی اور گیس کے نرخوں میں ہوشربا اضافے نے صنعت پہ گہرا وار کیا۔ پالیسی ریٹ میں اضافہ سرمایہ کاری کی راہ میں ایک اضافی رکاوٹ ثابت ہوا۔ گو کہ اب بتدریج شرح سود میں کمی کی جا رہی ہے مگر اب یہ بھی یہ علاقائی مسابقت کے قابل نہیں ہے۔ ایسے میں سرمایہ کاری کی سطح کو بحال کرنے اور اس کے فروغ کیلئے مناسب ترغیبات کی ضرورت ہے۔ صنعتوں کی ٹیکس پالیسی کا بھی ازسر نو جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ ٹیکس کا نظام یوں تو جامع اصلاحات کا متقاضی ہے کہ بہت سے شعبے اب تک ٹیکس نیٹ سے باہر ہیں جبکہ دیگر پر ٹیکسوں کا بوجھ مسلسل بڑھایا جا رہا ہے۔ اس حوالے سے صنعت‘ رئیل اسٹیٹ‘ زراعت اور ریٹیل تجارت سے متعلق یکساں ٹیکس کا اصول اپنایا جا سکتا ہے۔ دوسری جانب اس حقیقت کے ادراک کی بھی ضرورت ہے کہ ترقی کی بنیاد داخلی سلامتی میں پیوست ہے جبکہ خوشحالی کا لازمہ استحکام ہے۔ داخلی سیاسی بگاڑ کے ساتھ ہم نہ ترقی کر سکتے ہیں اور نہ ہی خوشحالی ہمارا مقدر بن سکتی ہے۔ گزشتہ دو‘ تین برس کے دوران ہم سیاسی اعتبار سے غیر ضروری عدم استحکام اور شورش برپا کر کے قومی معیشت اور سماجی سکون کو جتنی ٹھیس پہنچا چکے‘ اس کی مثال نہیں ملتی۔ پریشانی کا بڑا سبب یہ ہے کہ یہ سلسلہ کہیں رکتا دکھائی نہیں دیتا اور سیاسی قائدین اپنی ذمہ داریوں کے ادراک سے عاری نظر آتے ہیں۔ ہماری سیاسی قیادت کو اس حقیقت کو جلد ازجلد تسلیم کرنا ہو گا کہ جب تک سیاسی مصالحت کا راستہ نہیں نکالا جاتا‘ معاشی ترقی کا سفر ممکن نہ ہو گا۔ لہٰذا بہتر ہے کہ بیرونی سرمایہ کاری کے ساتھ ساتھ سیاسی افہام وتفہیم پر بھی توجہ دی جائے تاکہ اس سیاسی جمود سے نکلنے کی راہ سجھائی دے سکے۔

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں