اداریہ
WhatsApp: 0344 4450229

قومی اتحاد اور سلامتی

وزیراعظم شہباز شریف نے گزشتہ روز کوئٹہ میں امن و امان کے حوالے سے خصوصی اجلاس میں اس جانب توجہ دلائی کہ دہشتگردی سے نمٹنا ہماری اجتماعی ذمہ داری ہے۔ وزیراعظم کا کہنا تھا کہ قوم کے سپوت ماضی کی غلطیوں کا اپنے خون سے ازالہ کر رہے ہیں‘ یہ وقت سیاست کا نہیں ‘ اتفاق و اتحاد سے اس چیلنج کا مقابلہ کرنا ہے۔ حالیہ عرصے میں دہشتگردی کے خطرات میں جس قدر اضافہ ہوا یہ سب پر عیاں ہے۔ سال 2024ء‘ 2015ء کے بعد سب سے خونیں سال تھا جبکہ گزشتہ ماہ (جنوری میں) دہشتگردی کے واقعات میں 42 فیصد اضافہ ہوا۔ دہشتگردی کے بڑھتے ہوئے واقعات کا جائزہ لیا جائے تو اس میں سیاسی انتشار اور حکومتی پالیسیوں کے عدم تسلسل کا اہم کردار ہے۔ یہ ایک ناقابلِ تردید حقیقت ہے کہ آج وفاق اور صوبوں کے علاوہ حکومت اور عوام میں بھی عدم اعتماد پایا جاتا ہے اور دہشتگرد انہی فالٹ لائنز کا فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ اس وقت قوم میں دہشتگردوں کے خلاف 2015ء جیسی یکسوئی نہیں پائی جاتی۔ دسمبر 2014ء میں سانحہ اے پی ایس پشاور کے بعد عسکری و سیاسی قیادت نے نیشنل ایکشن پلان کے نام سے ایک متفقہ لائحہ عمل تیار کیا تھا اور وفاق اور صوبوں کے ساتھ ساتھ اداروں میں بھی ذمہ داریاں تقسیم کر دی تھیں‘ جس کے اثرات فوری نظر آنا شروع ہو گئے تھے اور دو سے تین سال میں ملک میں دہشتگردی کے واقعات نہ ہونے کے برابر رہ گئے تھے۔ 2014ء میں عسکریت پسندی اور دہشتگردی کے 1500 سے زائد واقعات میں 500 سے زائد اہلکار اور لگ بھگ 1500 سویلین شہید ہوئے جبکہ 2017ء میں دہشتگردی کے واقعات کی تعداد 294 رہ گئی تھی جن میں 216 سکیورٹی اہلکار اور 439 شہری شہید ہوئے۔ آج حالات یہ ہیں کہ سیاسی قیادت اپنی ہی لڑائیوں میں مگن ہے اور پارلیمان میں قومی سلامتی کے معاملات سیاسی فریقین کی ترجیحات میں نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ عوامی سطح پر دہشتگردوں کے خلاف اتفاقِ رائے کا وہ ماحول نہیں بن پایا جو 2017 ء اور بعد کے برسوں میں تھا۔ دہشتگردی سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے صوبے خیبر پختونخوا کی بات کی جائے تو یہ امر تشویشناک ہے کہ دہشت گردی کے خلاف عسکری آپریشنز کو مقامی لوگوں کی حمایت حاصل نہیں۔ گزشتہ برس 23 جون کو وزیراعظم کی سربراہی میں نیشنل ایکشن پلان پر مرکزی اپیکس کمیٹی کے اجلاس میں آپریشن عزم استحکام کے آغاز اور انسدادِ دہشتگردی کی قومی مہم کو دوبارہ متحرک اور فعال کرنے کی منظوری دی گئی تھی لیکن بعض سیاسی جماعتوں نے کے پی میں کسی نئے آپریشن کی مخالفت کی۔ حکومت کی جانب سے عزم استحکام کو عسکری آپریشن کے بجائے ایک جامع اور کثیر جہتی پالیسی قرار دیا گیا‘ اور اس پر اتفاقِ رائے کیلئے آل پارٹیز کانفرنس کا عندیہ بھی دیا گیا مگر آج سات ماہ سے زائد عرصہ گزر جانے کے باوجود نہ تو اے پی سی کا انعقاد ہو سکا اور نہ ہی عزم استحکام پر اتفاقِ رائے ہو پایا۔ ملک کی داخلی سلامتی کیلئے جو سب سے بڑا خطرہ ہے وہ ملک سے باہر ہے یعنی دہشتگردوں کی سرحد پار کمین گاہیں۔ ان سے نمٹنے کی حکمتِ عملی کے حوالے سے بھی کے پی حکومت اور وفاق کے مؤقف میں تضاد نظر آتا ہے۔پالیسیوں کا عدم تسلسل اور عدم اتفاق بھی خرابیوں کو جنم دیتا رہا ہے۔ ہماری قومی قیادت میں پالیسیوں کو شخصیات سے منسوب کرنے اور قیادت کی تبدیلی کے ساتھ ہی پالیسی میں یکسر تبدیلی کا رجحان بھی بگاڑ کا سبب بنتا رہا ہے۔ ملک بھر میں بگڑتی ہوئی امن وامان اور سکیورٹی کی صورتحال سے فوری طور پر نمٹنا ناگزیر ہو چکا ہے مگر عسکری قوت کے ساتھ ساتھ سیاسی قیادت کو بھی اپنی ذمہ داریوں کا بوجھ اٹھانا چاہیے۔ نیشنل ایکشن پلان میں سکیورٹی اداروں‘ وفاق اور صوبائی حکومتوں‘ سب کی ذمہ داریاں متعین ہیں۔ ضرورت ہے کہ سیاسی قیادت اس حوالے سے سر جوڑ کر بیٹھے اور دہشت گردی کے خاتمے کیلئے یکسوئی اختیار کرے۔

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں