سنگل ڈیجٹ کے ثمرات؟
گزشتہ ڈھائی ماہ کے دوران چینی کی قیمت میں 28روپے فی کلو سے زائد اضافے کے بعد حکومت نے رمضان میں عام مارکیٹ میں 140روپے جبکہ حکومت کی طرف سے لگائے جانے والے خصوصی سٹالز پر 130روپے فی کلو چینی کی فراہمی کا عندیہ دے رکھا ہے مگر شوگر ملز ایسوسی ایشن نے ان نرخوں پر چینی فروخت کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ حکومت نے گزشتہ برس شوگر ملز کو اس شرط کے ساتھ چینی برآمد کرنے کی اجازت دی تھی کہ ملک میں چینی کی قیمت 140روپے فی کلو سے اوپر نہیں جائے گی‘ لیکن پچھلے دس ہفتوں سے مسلسل اضافے کے بعد اس وقت ملک میں چینی 160روپے فی کلو سے زائد میں فروخت ہو رہی ہے اور کوئی پوچھنے والا نہیں۔ اگر رمضان میں بھی یہی رجحان برقرار رہا تواس ماہِ مبارک میں نہ صرف چینی بلکہ اس سے بننے والی مصنوعات بھی عوام کی پہنچ سے باہر رہیں گی۔ اسی طرح خوردنی تیل کی قیمتوں میں بھی مسلسل اضافہ جاری ہے۔ وفاقی ادارۂ شماریات کے مطابق گزشتہ ہفتے 13دیگر اشیائے صرف بھی مہنگی ہوئی ہیں۔ ان زمینی حقائق کے برعکس حکومت مہنگائی کے سنگل ڈیجٹ میں آنے کی دعویدار ہے۔ مہنگائی کا بظاہر سنگل ڈیجٹ میں آنا خوش آئند ہے لیکن مہنگائی میں اس کمی کے اثرات عام صارف تک منتقل بھی تو ہونے چاہئیں۔ ضروری ہے کہ حکومت رمضان سے قبل نہ صرف چینی اور خوردنی تیل بلکہ دیگر اشیائے صرف کی قیمتوں میں کمی یقینی بنائے تاکہ سنگل ڈیجٹ مہنگائی کے ثمرات عوام تک منتقل ہو سکیں۔