اداریہ
WhatsApp: 0344 4450229

پروپیگنڈا کا رد کیسے!

برطانیہ کے سابق وزیراعظم ونسٹن چرچل کا مشہور مقولہ ہے کہ قنوطیت پسند ہر موقع کو ایک مشکل کے طور پر دیکھتا ہے جبکہ رجعت پسند ہر مشکل کو بھی اپنے لیے ایک موقع گردانتا ہے۔ بحیثیت قوم سانحہ جعفر ایکسپریس ہمارے لیے ایک ایسا ہی مشکل وقت ہے‘ اگر ہم چاہیں تو اس مشکل گھڑی سے اپنے مستقبل کیلئے بہتر مواقع کشید کر سکتے ہیں۔ یہ امر خوش آئند ہے کہ اس سانحہ کے بعد دہشت گردی کی مذمت کے حوالے سے پوری قوم یک زبان ہے اور قومی اسمبلی میں ٹرین ہائی جیک کرنے پر حکومت اور حزبِ اختلاف سمیت تمام پارلیمانی جماعتوں نے ایک متفقہ مذمتی قرارداد منظور کی ہے جس میں شہریوں کی زندگیوں کو خطرے میں ڈالنے اور ملک کے امن کو تہ وبالا کرنے والی دہشت گردی کی تمام کارروائیوں کی پُرزور مذمت کرتے ہوئے دہشت گردی کے خاتمے کیلئے ہر ممکن اقدام کا عزم کیا گیا ہے۔ تاہم یہ بات بھی قابلِ غور ہے کہ جیسے ہی کوئی واقعہ ہوتا ہے تو چند ہی منٹوں میں سماجی میڈیا پر اس واقعے کے حوالے سے گمراہ کن رپورٹنگ شروع ہو جاتی ہے۔ اگرچہ اس کام میں ہمارا مشرقی ہمسایہ پیش پیش ہوتا ہے‘ جس کا یہ پرانا وتیرہ رہا ہے کہ پرانی تصاویر‘ پرانی فوٹیج اور مصنوعی ذہانت سے بنی وڈیوز اور تصاویر نشر کرکے اپنے جھوٹے بیانیے کو فروغ دینا شروع کر دیتا ہے۔ پھر اس جھوٹ اور پروپیگنڈا کو گمنام سوشل میڈیا اکاؤنٹس کے ذریعے پھیلایا جاتا ہے اور ابلاغی مہارت سے تراشا گیا یہ جھوٹ بظاہر اتنا پُرکشش دکھائی دیتا ہے کہ بہت سے لوگ جانے انجانے میں اس کے دامِ فریب میں پھنس جاتے ہیں۔ یرغمال ٹرین کی بازیابی کے دوران سوشل میڈیا پر پروپیگنڈا اور جھوٹ کے بے دریغ پھیلائو کا یہ پہلا واقعہ نہیں ہے۔ ہمارا معاشرہ حالیہ عرصے میں متعدد ایسے مظاہر دیکھ چکا ہے جن سے اس احساس کو تقویت ملتی ہے کہ جعلی خبروں اور پروپیگنڈا کی روک تھام کیلئے سوشل میڈیا پر کڑی نظر رکھنا ناگزیر ہو چکا مگر اس موقع پر ہمیں اس سوال کا بھی جواب تلاش کرنا چاہیے کہ دشمن کو پروپیگنڈا کا موقع کیسے میسر آتا ہے؟ اس حوالے سے سب سے بڑی ذمہ داری حکومت پر عائد ہوتی ہے جو عوام تک درست اور مصدقہ معلومات پہنچانے کی ذمہ دار ہے۔ جب حکومتی سطح پر اس حوالے سے سنجیدہ رویہ نظر نہیں آتا یا اپنی ذمہ داریوں سے تغافل برتا جاتا ہے تو خبر کا خلا پیدا ہوتا ہے۔ اس خلا کو دشمن اپنے پروپیگنڈا سے پورا کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ اگرچہ ہمارے دین میں سنی سنائی اور غیر مصدقہ باتوں کی تشہیر کی سختی سے ممانعت ہے اور یہ سماجی سطح پر ہمارے لیے پروپیگنڈا کے خلاف ایک بڑا سہارا ہے مگر حکومت کا اہم مواقع پر خاموشی اختیار کر لینا دشمن کو سوشل میڈیا کے ذریعے ملکی نوجوانوں کی ذہن سازی کی کھلی چھوٹ دینے کے مترادف ہے۔ ملک کی اکثریتی آبادی کو اس طرح دشمنوں کے رحم وکرم پر نہیں چھوڑا جا سکتا۔ عراق‘ شام اور لیبیا کی مثالیں کس سے ڈھکی چھپی ہیں کہ وہاں بھی اسی طرح پروپیگنڈا مہموں کے ذریعے انتشار اور فساد کو ہوا دی گئی اور ریاستی اداروں اور عوام میں دوریاں پیدا کی گئیں۔ اگر حکومتی سطح پر منظم انداز میں مصدقہ خبر رسانی کا فریضہ انجام دیا جا رہا ہو تو دشمن کے پروپیگنڈا کو پَر پھیلانے کی جگہ نہیں مل سکتی۔ یہ بھی دیکھا گیا کہ بعض افراد ہر موقع پر سیاسی حساب برابر کرنے کی تاک میں رہتے ہیں اور موقع کی حساسیت کو نظر انداز کر کے ہر آن سیاسی مخالفین کے لتے لینے کے درپے رہتے ہیں۔ یہ رجحان ہمارے قومی مفاد کے منافی ہے۔ قومی سانحات پر سیاسی نمبر ٹانکنا ایک پست حرکت ہے۔قومی چیلنجز کا مقابلہ یکجا ہو کر کیا جاتا ہے‘ ایسے مواقع پر تقسیم کوہوا نہیں دی جاتی۔ ضروری ہے کہ حکومتی سطح پر اس جانب بھی توجہ کی جائے تا کہ رویوں میں بہتری لائی جاسکے۔ جہاں تک قومی اداروں کے خلاف جھوٹ اور لغویات پھیلانے کی بات ہے تو اس سے یقینا قانونی انداز سے نمٹنا ضروری ہے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00