دہشت گردی کے خلاف کثیر جہتی حکمت عملی
دہشت گردی کے بڑھتے واقعات قومی وجود کے لیے سنگین خطرہ ہیں چنانچہ ضروری ہے کہ اس خطرے سے نمٹنے کے لیے قومی سطح پر فیصلہ کن اقدامات کیے جائیں۔ دہشت گردی کے خلاف نتیجہ خیز کارروائی کے لیے دہشت گردی کی حرکیات کو سمجھنا ہو گا۔ دہشت گردی کے خلاف کامیاب جنگ کا ناگزیر تقاضا ہے کہ قومی سطح پر اتفاق و اتحاد قائم کیا جائے جبکہ سماج اور دہشت گرد عناصر کے مابین خلیج وسیع کی جائے اور سماج میں دہشت گردوں کے لیے نرم گوشے کا کوئی تصور باقی نہ رہنے دیا جائے۔ اس کے لیے فعال سماجی اداروں اور متحرک قیادت کی ضرورت ہوتی ہے جو سماج میں شدت پسندوں کے خلاف حقیقت پسندانہ سوچ پروان چڑھانے کا کام کرتی ہے ۔ ماضی میں دہشت گردوں کے خلاف سیاسی قیادت ‘عوامی حلقوں اور بااثر سماجی شخصیات کا ردعمل قومی یکجہتی کاآئینہ دار رہا ہے‘ جس کا نتیجہ یہ تھا کہ سنگین خطرات کے ہنگام بھی قومی اعتماد مستحکم رہا اور مخالف پروپیگنڈا کرنے والے بدخواہوں کو پروپیگنڈے کا موقع نہیں ملا۔ دہشت گردی کے واقعات بہت تھے مگر عوامی اعتماد اور قومی جذبہ ہمیشہ بہت بلند درجے پر رہا ۔ یہ کیفیت دہشت گردوں کے خلاف جاری جنگ میں بڑی مؤثر ثابت ہوئی۔ دہشت گردی کی جنگ میں پاکستان کو بھاری جانی اور مالی نقصان اٹھانا پڑے مگرعوامی محاذ پر اتحاد اور اعتماد کی کیفیت میں دہشت گردوں کو فیصلہ کن شکست دینے میں بہت کم وقت میں کامیابی حاصل ہو گئی۔ آج کی صورتحال ماضی سے مختلف ہے۔ آج عوامی سطح پر اعتماد اور حوصلہ بڑھانے والی آوازیں کم ہیں اور منفی پروپیگنڈا کرنے ‘ جلتی پر تیل ڈالنے اورملکی سلامتی کو خطرات میں جھونک کر اپنا سیاسی الو سیدھا کرنے والے زیادہ ہیں۔ آج انفارمیشن کے وسائل بھی زیادہ ہیں اس لیے جہاں ان وسائل کے ملکی فائدے میں استعمال کے امکانی فوائد زیادہ ہیں وہیں ان کے منفی استعمال سے ہونے والے نقصان کا درجہ بھی زیادہ ہے۔ ہمیں مؤخر الذکر صورتحال کا سامنا ہے کہ انفارمیشن کے وسائل جو فی الواقع ڈس انفارمیشن کے وسائل بن چکے ہیں پاکستان کے حق میں کم اور خلاف زیادہ استعمال ہو رہے ہیں۔جعفر ایکسپریس کے حوالے سے منفی اور من گھڑت خبروں کا پھیلاؤ ابھی تازہ ترین واقعہ ہے ۔ اگرچہ اس کام میں بھارتی چینلوں کا حصہ زیادہ تھا مگر سوشل میڈیا پر بظاہر پاکستانی شناخت کے حامل صارفین نے بھی اس پروپیگنڈا کو پھیلانے میں خوب حصہ ڈالا۔دوسری جانب سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں کو اس نازک موقع پر بھی ایک دوسرے کے لتے لینے سے فرصت نہیں ملی۔ مقام افسوس ہے کہ سیاسی کردار اس حساس صورتحال میں بھی ایک دوسرے کی ناک رگڑنے کی ضد اور روایتی ہتھکنڈوں سے باز نہیں آئے۔ یہ تُو تُو میں میں اُن عناصر کے لیے یقینا اطمینان کا موجب ہو گی جو پاکستان کو سیاسی طور پر الجھا ہوا‘ بکھرا ہوا اور سماجی طور پر پراگندہ دیکھنے کے خواہش مند ہیں مگر پاکستان کے محب وطن شہریوں یا پاکستان کے دوستوں کے لیے یہ رویہ تکلیف دہ ہے۔ اس رویے نے اُن عناصر کا کام تو یقینا آسان کر دیا جو دنیا کو پاکستان سے دور کرنے کی چالیں چلتے رہتے ہیں۔دانشمندی کا تقاضا یہ ہے کہ اس شوروشر سے نکل کر حالات کی سنگینی کو سمجھنے کی کوشش کی جائے۔ اگر سیاسی جماعتوں کی ایک گول میز کانفرنس کروا لی جائے تو امید ہے کہ اس سے یہ کام آسان ہو سکتا ہے؛چنانچہ حکومت کو اس میں تاخیر نہیں کرنی چاہیے۔ اگلے روز وزیر اعظم شہاز شریف نے دہشت گردی کے حوالے سے خطرات اور مضمرات کے جو اشارے دیے ہیں وہ بے جا نہیں۔ اس صورتحال میں ہمیں قومی سطح پر دہری ‘ تہری رفتار سے دوڑنا ہو گا۔ ایک ہی وقت میں کئی جہتوں پر کام شروع کرنا پڑے گا۔ آغازِ کار سیاسی حلقوں کو اعتماد میں لینے سے ہونا چاہیے ۔ سماجی سطح پر قومی یکجہتی کے احساس کو تقویت دینے کی ضرورت ہے۔ جن علاقوں میں خطرات کا لیول زیادہ ہے وہاں یہ کام بلاتاخیر ہونا چاہیے۔ دہشت گردی ملک کا دیرینہ مسئلہ ہے مگر حالیہ کچھ برسوں سے اس میں جس تیزی سے اضافہ ہوا ہے وہ خوفناک ہے۔ آج کل پاکستان دنیا میں دہشت گردی سے متاثرہ اولین ممالک میں شامل ہے۔ اس شہرت کے جو اثرات سرمایہ کاری کے امکانات پر ہیں انہیں بھی نظر انداز نہ کیا جائے۔ یہ کہنا یقینی طور پر درست ہے کہ دہشت گردی اور سرمایہ کاری کے امکانات کو سبوتاژ کرنے کے مقاصد میں یک گونا مماثلت پائی جاتی ہے۔ کچھ عرصے سے بلوچستان اس دہشت گردی کا بڑا ہدف ہے۔ دہشت گردی کے یہ وار جو بظاہر بلوچستان کے وسائل‘ عوام یا ملکی مفادات پر کیے جارہے ہیں دراصل ترقی و خوشحالی کے ان امکانات پر ہیں جو آنے والے چند برس میں بلوچستان کو خطے میں بین الاقوامی تجارت کا سنگم بنا دینے کی پوری صلاحیت رکھتے ہیں۔ ان خطرات کے سدباب کیلئے سہ جہتی حکمت عملی پر کام کرنا ہو گا۔ آپریشنل کارروائیاں تو یقینا جاری رہیں گی مگر سماجی سطح پر جب تک شدت پسندی کی بیخ کنی نہیں ہوتی دہشتگردی کے خدشات کی جانب سے اطمینان نہیں ہو سکتا۔ معاشی پسماندگی دہشتگردی کے فروغ کا ایک سبب ہے چنانچہ سیاسی و سماجی ہم آہنگی کے ساتھ ساتھ عوام کی معاشی بہتری بھی انسدادِ دہشت گردی کی مؤثر حکمت عملی میں شامل ہونی چاہیے۔