قومی سلامتی کا عزم
قومی سلامتی پارلیمانی کمیٹی کے اِن کیمرہ اجلاس میں سیاسی وعسکری قیادت نے دہشت گردی کے خلاف تمام وسائل بروئے کار لانے اور ہر آپشن استعمال کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اعلامیہ کے مطابق اجلاس میں دہشت گردی کے خطرے کا مقابلہ کرنے کے لیے سٹرٹیجک اور متفقہ سیاسی عزم اور انسدادِ دہشت گردی کے لیے قومی اتفاق کی ضرورت پر زور دیا گیا۔ دہشت گردوں کے نیٹ ورکس‘ لاجسٹک سپورٹ اور دہشت گردی وجرائم کے گٹھ جوڑ کوختم کرنے کے لیے نیشنل ایکشن پلان اور عزم استحکام کی حکمت عملی پر فوری عمل درآمد کا فیصلہ کیا گیا۔ اجلاس میں وزیراعظم شہباز شریف‘ آرمی چیف جنرل عاصم منیر‘ پنجاب‘ خیبر پختونخوا اور بلوچستان کے وزرائے اعلیٰ اور گورنرز اور وزیراعظم آزاد کشمیر کے علاوہ چاروں صوبوں کے آئی جیز نے بھی شرکت کی۔ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے آرمی چیف جنرل عاصم منیر کا کہنا تھا کہ ملکی سلامتی سے بڑا کوئی ایجنڈا نہیں۔ پاکستان کے تحفظ کے لیے یک زبان اور اپنے سیاسی اور ذاتی مفادات سے بالاتر ہو کر ایک بیانیہ اپنانا ہوگا۔ اس میں کچھ شک نہیں کہ قومی قیادت نے ملکی سالمیت اور تحفظ کے حوالے سے جس عزم کا اظہار کیا ہے‘ اس پر اگر من و عن عمل ہو جائے تو درپیش سکیورٹی مسائل میں خاطر خواہ کمی آ سکتی ہے۔ سیاسی و عسکری قیادت‘ دونوں نے قومی اتحاد اور قومی مفاد کو اولیت دینے کی ضرورت پر زور دیا ہے مگر قومی نوعیت کے اس اہم اجلاس میں عدم شرکت سے حزبِ اختلاف کی سنجیدگی اور ترجیحات پر سوالات اٹھ رہے ہیں۔ ہماری سیاسی قیادت شاید اب تک یہ سمجھنے سے قاصر ہے کہ حساس ملکی و قومی معاملات داخلی سیاست سے کہیں بلند اور ماورا ہوتے ہیں۔ ان کو شخصیات یا گروہی مفادات کی نذر نہیں کیا جا سکتا۔ اجلاس میں شرکت کے اعلان کے بعدپی ٹی آئی کی جانب سے بائیکاٹ کا اعلان بھی حیران کن تھا۔ قومی سیاسی جماعتوں کو احساس ہونا چاہیے کہ وہ محض ایک سیاسی جماعت نہیں بلکہ ان پر عوام کے تحفظ کی بھی ذمہ داری ہے۔ خیبر پختونخوا میں پی ٹی آئی کی حکومت ہے اور وہ صوبہ دہشت گردی سے شدید متاثر ہے۔ رواں سال اب تک دہشت گردی کے 57 فیصد واقعات اسی صوبے میں ہوئے ہیں۔ اس تناظر میں ضروری تھا کہ پی ٹی آئی قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں ضرور شریک ہوتی۔ دوسری جانب اپوزیشن کی جانب سے پارلیمانی جماعتوں کے بجائے آل پارٹیز کانفرنس بلانے کا جو مشورہ دیا گیا وہ بھی قابلِ غور ہے مگر اچھا ہوتا کہ یہ مشورہ سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں شرکت کر کے وہاں پیش کیا جاتا۔ سیاسی جماعتوں میں اختلافات کا ہونا ایک فطری امر ہے مگر جب یہ اختلافات قومی معاملات پر محیط ہونے لگیں تو سماج میں بگاڑ پیدا ہونے لگتا ہے۔ آج ہمیں اسی چیلنج کا سامنا ہے۔ جمہوری سیاست میں اس روش سے اجتناب کے لیے مکالمے اور بات چیت کا در رکھا گیا ہے تاکہ سیاسی قیادت آپس میں مل بیٹھ کر مسائل کا حل تلاش کرے مگر ہماری سیاسی قیادت ساتھ بیٹھنے سے ہی گریزاں نظر آتی ہے۔ ایسے میں اس سوال کا اٹھنا فطری ہے کہ جو قیادت ساتھ بیٹھنے سے گریز پا ہے‘ وہ یکجا ہو کر ملکی مسائل کا حل کیسے نکال سکتی ہے؟ ضرورت اس امر کی ہے کہ سیاسی قیادت اپنے گروہی و انفرادی مفادات سے بالاتر ہو کر درپیش مسائل کی طرف توجہ دے اور دہشت گردی کے سنگین مسئلے سے نمٹنے کیلئے اتحاد و یکجہتی کا مظاہرہ کرے۔ اہم قومی معاملات پر سیاسی جماعتوں کا یکسو اور یک زبان ہونا پوری قوم کیلئے ایک مثال بنے گا اور ان کو بھی یکجا کرنے کا سبب بنے گا۔