اداریہ
WhatsApp: 0344 4450229

فلسطینیوں سے یکجہتی

قومی اسمبلی میں فلسطینی عوام سے اظہارِ یکجہتی اور اسرائیلی مظالم کے خلاف متفقہ قرارداد کی منظوری واضح کرتی ہے کہ پاکستان فلسطینیوں کے انسانی‘ اخلاقی اور قانونی حقوق کی حمایت کے موقف سے پیچھے نہیں ہٹا اور آج بھی پاکستان کی فلسطین پالیسی وہی ہے جو بانیٔ پاکستان قائداعظم محمد علی جناح نے طے کی تھی کہ غاصب صہیونی ریاست کو پاکستان کبھی تسلیم نہیں کرے گا۔ قومی اسمبلی میں پاس کردہ قرار داد میں اقوام متحدہ اور عالمی برادری سے غزہ میں فوری جنگ بندی‘ اسرائیلی افواج کے غزہ  سے فوری انخلا اور تباہ حال غزہ کی تعمیرِ نو میں کردار ادا کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔گزشتہ ڈیڑھ برس سے غزہ میں جاری اسرائیلی جارحیت اب تک 50 ہزار سے زائد فلسطینیوں کی جان لے چکی ہے۔ ساری غزہ کی پٹی اسرائیلی بربریت کا ثبوت پیش کر رہی ہے۔ حتیٰ کہ ہسپتال‘ سکول‘ عبادت گاہیں‘ امدادی مراکز اور پناہ گزین کیمپ بھی اسرائیلی درندگی سے محفوظ نہیں ہیں۔ جنوری میں اسرائیل اور حماس کے مابین جنگ بندی معاہدہ طے پانے کے بعد امید ظاہر کی جا رہی تھی کہ لٹے پٹے فلسطینیوں کو اب سکھ کا سانس نصیب ہو گا لیکن اسرائیل اپنے یرغمالیوں کی رہائی کے بعدپھر سے غزہ پر آتش و آہن کی برسات کر رہا ہے۔ یہ امراب کسی سے پوشیدہ نہیں رہا کہ اسرائیل مغربی ممالک سے حاصل ہونے والی مالی‘ عسکری اور سفارتی امداد کے بغیر یہ جنگ جاری نہیں رکھ سکتا۔ اگر محض امریکہ کی بات کی جائے تو 1948ء سے اب تک اسرائیل امریکہ سے 150 ارب ڈالر سے زائد کی امداد لے چکا ہے۔ صرف 2023-24ء میں امریکہ نے اسرائیل کو 3.8 ارب ڈالر کی فوجی امداد دی جس کا بیشتر حصہ غزہ میں نہتے فلسطینیوں پر حملوں میں استعمال ہوا۔مغربی دنیا کی دہری پالیسیاں اس کے بیانات سے ظاہر ہیں کہ یوکرین کیلئے تو فوری امدادی پیکیج جاری ہو جاتے ہیں اور روس کے خلاف پابندیاں بھی عائد کر دی جاتی ہیں مگر اسرائیل کی کھلی جارحیت پر زبانی اظہارِ افسوس سے بھی گریز کیا جاتا ہے۔اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں جنگ بندی سے متعلق کئی قراردادیں منظور ہوئیں مگر سلامتی کونسل میں امریکہ کے ویٹو نے ان قراردادوں کو عملی قالب میں ڈھلنے نہیں دیا۔ اس صورتحال میں او آئی سی اور مسلم ممالک پر عائد ذمہ داری دوچند ہوجاتی ہے مگر ان کا کردار بھی مایوس کن رہا ہے۔ فلسطین کے مسئلے پر وجود میں آنے والی اسلامی تعاون تنظیم اب محض علامتی قراردادوں‘ مشترکہ اعلامیوں اور اجلاسوں تک محدود ہو چکی ہے۔مسلم دنیا کے پاس وسائل کی کمی نہیں اور سفارتی اثر و رسوخ بھی موجود ہے لیکن اس کے باوجود فلسطینی عوام کی عملی مدد کیلئے کوئی متحد اور ٹھوس لائحہ عمل سامنے نہیں آ سکا۔ اس ضمن میں او آئی سی کو چاہیے کہ محض رسمی بیانات پر اکتفا نہ کرے بلکہ اقوام متحدہ اور عالمی عدالت انصاف جیسے پلیٹ فارمز کو غزہ میں جنگ بندی کیلئے بروئے کار لائے۔ قومی اسمبلی کی قرارداد پاکستانی عوام کے جذبات کی درست ترجمانی کرتی ہے لیکن غزہ کا بدترین انسانی المیہ زبانی مذمت سے آگے بڑھ کر عملی اقدام کا متقاضی ہے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00