پاکستان اورمصر علاقائی استحکام کے لیے پُرعزم

مصر کے ساتھ تعلقات فلسطین میں صہیونی جارحیت و بربریت‘ اسرائیل ایران کشیدگی‘ خطے کے کشیدہ حالات اور پاکستان میں افغان سرزمین سے جاری دہشت گردی کے تناظر میں بڑی اہمیت کے حامل ہیں۔ گزشتہ 77 سال سے قائم تاریخی‘ ثقافتی اور ورثہ پر مبنی سفارتی تعلقات دونوں ممالک کی پائیدار دوستی کے گواہ ہیں۔ بلاشبہ کلمہ توحید نے امت مسلمہ کو ایک لڑی میں پرویا ہوا ہے۔ اس حوالے سے پاکستان اور مصر یک جان دو قالب ہیں جبکہ فلسطین اور کشمیر سے متعلق بھی دونوں کا موقف یکساں ہے۔ دونوں ممالک نے فلسطینیوں کی جبری نقلِ مکانی کی مخالفت کا اعادہ کیا ہے کہ ایک پائیدار حل ایک قابلِ عمل فلسطینی ریاست کے قیام ہی میں مضمر ہے جو جون 1967ء سے پہلے کی سرحدوں پر مبنی ہو اور اس کا دارالحکومت القدس الشریف ہو۔ اپنی مختلف جغرافیائی پوزیشن اور فاصلوں کے باوجود اس لازوال رشتے کی بنیاد قیام پاکستان سے قبل ہی پڑ گئی تھی جب بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح نے 1946ء میں مصر کا دورہ کیا تھا اور انہوں نے قیام پاکستان کی جدوجہد کے بارے میں مصری قیادت کو آگاہ کیا تھا۔ عرب مشاہیر اور لیڈروں نے گرمجوشی سے ان کا استقبال کیا تھا اور برصغیر کے مسلمانوں کے ساتھ اپنی روایتی اسلامی اخوت کا مظاہرہ کیا تھا۔ اسلام کے نام پر قائم ہونے والی مملکت کے اس خواب میں مشرق وسطیٰ کے مسلمانوں نے اسلامی نشاۃ ثانیہ کی تعبیر دیکھی تھی۔ مصر مشرق وسطیٰ کا پہلا ملک ہے جہاں 30 جون 1948ء کو پاکستان کا پہلا سفیر تعینات ہوا۔ مصر کا سفارت خانہ اسلام آباد میں ہے اور پاکستان کا سفارت خانہ قاہرہ میں ہے۔ مزید برآں‘ مصر اور پاکستان بین الاقوامی تنظیموں جیسے اسلامی تعاون کی تنظیم (OIC) اور ترقی پذیر ممالک کے D8 گروپ کے فعال رکن بھی ہیں۔ مصر اور پاکستان دونوں بڑے نان نیٹو اتحادیوں کا درجہ رکھتے ہیں۔ مصر کی مشہور جامعۃ الازہر میں تعلیم حاصل کرنا پاکستانی ایک اعزاز سمجھتے ہیں۔ مصر کے تعاون ہی سے اسلام آباد میں انٹرنیشنل اسلامی یونیورسٹی قائم ہوئی اور آج تک مصر سے سکالرز یہاں آکر تعلیم وتربیت کا فریضہ انجام دے رہے ہیں۔ حالیہ برسوں میں دونوں ممالک نے مختلف اقدامات کے ذریعے دوطرفہ تعلقات کو مزید مضبوط بنایا ہے جن میں سالانہ دو طرفہ مشاورت بھی شامل ہے جو تجارت‘ سرمایہ کاری اور ثقافتی تبادلوں میں تعاون پر مرکوز ہے۔ نومبر 2022ء میں وزیراعظم شہباز شریف نے شرم الشیخ‘ مصر میں سی او پی 27 موسمیاتی سربراہی اجلاس میں شرکت کی جس میں پاکستان میں 2022ء کے تباہ کن سیلاب کے بعد کلائمیٹ چینج زر تلافی اور قرض میں نرمی حاصل کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔ 1951ء میں دونوں ممالک نے دوستی کے معاہدے پر دستخط کیے جو دونوں ممالک کے مابین مضبوط تعلقات کی علامت ہے۔ 1960ء میں پہلی بار پاکستان کا دورہ کرنے والے صدر جمال عبد الناصر نے 1965ء کی پاک بھارت جنگ روکنے کے لیے کردار ادا کیا تھا۔ پاکستان نے 1973ء کی مصر اسرائیل جنگ کے دوران مصر کے ساتھ یکجہتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے عسکری سپورٹ کے تحت اپنے فائٹر پائلٹ بھیجے تھے۔ پاکستان نے مصر کی فتح میں اہم کردار ادا کیا تھا اور اس حمایت کا ان کے سٹرٹیجک اتحاد کو مضبوط بنانے میں اہم کردار ہے۔ 70ء کی دہائی میں ثقافتی تبادلے کے پروگرام کے تحت پاکستانی طلبہ مصری یونیورسٹیوں میں داخل ہوئے اور مصری طلبہ نے پاکستان میں تعلیم حاصل کی۔
20ویں صدی کے آخری حصے میں مصر اور پاکستان کے مابین مختلف شعبوں بشمول زراعت‘ صحت کی دیکھ بھال‘ اعلیٰ تعلیم‘ تکنیکی معاونت‘ انفارمیشن اینڈ کمیونیکیشن ٹیکنالوجی (ICT) اور دیگر شعبوں میں تعاون کی نئی راہیں کھلیں۔ حال ہی میں ہیپاٹائٹس سی کے خاتمے کے لیے مشترکہ اقدامات پر غور کیا گیا۔ یقینا صحت کے شعبے میں بڑھتا ہوا یہ تعاون دونوں ممالک کے درمیان ہیلتھ ڈپلومیسی کو فروغ دے گا۔ پاکستان اور مصر کے مشترکہ وزارتی کمیشن نے تجارتی مذاکرات‘ زراعت‘ ٹیکسٹائل اور ٹیکنالوجی کے شعبوں میں سرمایہ کاری بڑھانے میں سہولت فراہم کی اور ان مشترکہ کوششوں کی بدولت اقتصادی شراکت داری مزید مستحکم ہوئی۔ عسکری شعبے میں پاکستان اور مصر نے انسدادِ دہشت گردی کی کاوشوں‘ انٹیلی جنس کے تبادلے سمیت مشترکہ سکیورٹی خدشات کو دور کرنے کے لیے مربوط فوجی مشقوں میں شمولیت اختیار کی۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کی حمایت جاری رکھتے ہوئے مئی 2009ء میں سابق مصری صدر حسنی مبارک کی ہدایات پر معاون وزیر خارجہ نے پاکستان کے عوام اور حکومت کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کرنے کے لیے اسلام آباد کا دورہ کیا تھا۔ اس دورے کے ساتھ ساتھ مصر وہ پہلا ملک تھا جس نے آئی ڈی پیز کے لیے امداد بھیجی۔ دفاع اور سلامتی کے شعبوں میں مزید تعاون بڑھانے کے لیے 2024ء میں 14ویں پاک مصر ملٹری کوآپریشن کمیٹی کا اجلاس منعقد کیا گیا۔ قبل ازیں پاک مصر پہلی مشترکہ فضائی دفاعی مشق سکائی گارڈ ون 2021ء میں منعقد ہوئی‘ جس کا مقصد فضائی دفاع کے شعبے میں موجودہ اور ابھرتے ہوئے خطرات کے پیش نظر فوجی تعاون کو تقویت دینا تھا۔ ستمبر 2008ء میں OIC‘ مصر اور پاکستان کے بینر تلے مسلم دنیا کی جانب سے اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل میں مذہب کی توہین پر پابندی کے لیے ایک قرارداد پیش کی۔ مسلح افواج کے کمانڈر انچیف نے دونوں ممالک کی مسلح افواج کے درمیان عسکری تعاون کے لیے پاکستان کا دورہ کیا۔
2000ء میں دونوں ممالک نے دو طرفہ سرمایہ کاری کے معاہدے پر دستخط کیے تھے۔ اس معاہدے کا مقصد سرمایہ کاری کو فروغ دینا اور باہمی تحفظ فراہم کرنا‘ کاروبار کی ترقی کے لیے سازگار ماحول پیدا کرنا ہے۔ اس کے نتیجے میں مصر کے مختلف اداروں نے پاکستانی مارکیٹ میں سرمایہ کاری کی جبکہ مصر میں ٹیکسٹائل کے شعبے میں متعدد پاکستانیوں نے سرمایہ کاری کی۔ 2021ء میں مصر کی پاکستان کیلئے برآمدات 466 ملین ڈالر تھیں۔ مصر نے پاکستان کو جو بنیادی مصنوعات برآمد کیں ان میں پٹرولیم گیس (325 ملین ڈالر)‘ خام کپاس (24.4 ملین ڈالر)‘ اور بیج (13.8 ملین ڈالر) شامل ہیں۔ گزشتہ سالوں میں مصر کی پاکستان میں برآمدات میں 1995ء میں 4.56 ملین ڈالر سے بڑھ کر 2021 ء میں 466 ملین ڈالر تک پہنچ گئی تھیں۔ پاکستان نے مصر کو جو اہم مصنوعات برآمد کیں ان میں ہیوی پیور وون کاٹن (43.5 ملین ڈالر)‘ ہیوی مکسڈ وون کاٹن (9.22 ملین ڈالر)‘ اور جوٹ وون فیبرک (5.37 ملین ڈالر) شامل ہیں۔ مصر کو پاکستان کی برآمدات 1995ء میں 24.4 ملین ڈالر سے بڑھ کر 2021ء میں 110 ملین ڈالر تک پہنچ گئیں۔ مصر میں نہر سویز اور پاکستان میں گوادر بندرگاہ دونوں بحری سلک روٹ کے ساتھ اہم بندرگاہوں کے طور پر کافی اہمیت رکھتی ہیں۔ یہ تزویراتی مقامات باہمی تعاون اور تجارتی تبادلے میں اضافے کے خاطر خواہ مواقع فراہم کرتے ہیں۔ تجارتی حجم 200 ملین ڈالر کا ہندسہ عبور کرنے کے ساتھ ساتھ‘ مختلف شعبوں میں تقریباً 400 ملین ڈالر کی سرمایہ کاری ہوئی ہے۔ ان شعبوں میں تعمیرات‘ خدمات‘ ٹیکسٹائل‘ طبی آلات بالخصوص جراحی کے آلات سمیت سیاحت‘ زراعت اور دیگر اہم شعبے شامل ہے۔ 2024ء میں پاکستان میں مصری ایکسپورٹ 67.7 ملین ڈالر اور امپورٹ 67.3 ملین ڈالر تک پہنچ چکی ہیں۔ پاکستان کی مجموعی سرمایہ کاری مصر میں 2022-23ء کے دوران چار لاکھ ڈالر تک پہنچ گئی تھی۔ اسلام آباد چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری مصر کے تعاون سے مئی 2025ء میں Africa Exploring کے نام سے ایک تجارتی کانفرنس کا انعقاد کیا جا رہا ہے۔ اس میں دو آرا نہیں کہ پاکستان اور مصر کے درمیان تعلقات مضبوط اور کثیر جہتی ہیں اور دونوں مسلم برادر ممالک باہمی تعاون‘ مشترکہ مفادات‘ علاقائی استحکام اور اقتصادی ترقی کے لیے پُرعزم ہیں۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں