پاک افغان سفارتی پیش رفت
نائب وزیر اعظم اور وزیر خراجہ محمد اسحق ڈار کا دورۂ کابل دونوں ملکوں میں اہم سفارتی پیشرفت ہے۔ پاکستان اور افغانستان قریبی ہمسائے اور ثفاقتی‘ لسانی و دینی رشتوں میں بندھے ہوئے ہیں مگر پاکستان میں دہشت گردی کے بڑھتے ہوئے واقعات اور ان واقعات میں افغانستان کی سر زمین کا عمل دخل پاکستان کیلئے گہری تشویش کا باعث ہے۔ افغانستان کی سرزمین کا پاکستان کے خلاف استعمال ایک عرصے سے جاری تھا‘ خاص طور پر پچھلی دو دہائیوں کے دوران‘ جب افغانستان میں غیر ملکی افواج موجودتھیں‘ یہ کارروائیاں بہت بڑھ گئی تھیں۔ غیر ملکی افواج کے انخلا اور طالبان کے دوبارہ اقتدار حاصل کرنے کے ساتھ پاکستان میں یہ امید پائی جاتی تھی کہ افغانستان کی زمین کا پاکستان کے خلاف استعمال کا سلسلہ اب بند ہو گا۔ افغان قیادت کی جانب سے بھی بارہا اس کی یقین دہانی کرائی گئی‘ تاہم اگست 2021ء کے بعد صورتحال میں منفی تبدیلی واقع ہوئی اور پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ ہوا۔ یہ صورتحال پاک افغان تعلقات اور باہمی اعتماد کیلئے تباہ کن ثابت ہوئی اور دوطرفہ تعلقات میں بتدریج سرد مہری آتی چلی گئی۔ اس کے اثرات دونوں ملکوں کی تجارت اور عوامی روابط پر بھی پڑے۔اصولی طور پر یہ صورتحال دونوں ملکوں کے حق میں نہیں تھی۔ پاکستان اور افغانستان قریب ترین ہمسائے اور دکھ سکھ کے ساتھی ہیں۔ پچھلی نصف صدی کے دوران افغانستان کیلئے جب بھی مشکل وقت آیا پاکستان نے اپنے بردار ملک کے شہریوں کیلئے دیدہ و دل فرش راہ کئے۔ افغانستان کے پاس ساحل نہیں‘ اس کی بحری تجارت کا بنیادی انحصار پاکستان کی بندرگاہوں پرہے‘ اس طرح وسط ایشیا تک پاکستان کو زمینی رسائی کیلئے افغانستان کی راہداری درکار ہے۔ مجموعی طور پر دونوں ملکوں میں مل جل کر چلنے کے اتنے حوالے ہیں کہ انہیں نظر انداز کرنا ممکن نہیں؛ چنانچہ دونوں ملکوں میں اچھے سفارتی تعلقات بنیادی ضرورت ہیں اور دونوں جانب کے عوام کے مفاد اسی سے وابستہ ہیں۔ افغانستان کو اس حقیقت کا ادراک ہونا چاہیے کہ اس کی سرزمین کا پاکستان جیسے مخلص اور ہر وقت کے ساتھی ملک کے خلاف استعمال افغانستان کے مفادات کے خلاف سنگین سازش ہے۔دہشت گردی پاک افغان تعلقات میں بڑی رکاوٹ بن چکی ہے اور اس کے خاتمے کیلئے مشترکہ اقدامات ناگزیر ہو چکے ہیں۔ پاکستان اور افغانستان میں صرف پُرامن اور بھائی چارے پر مبنی تعلق ہی جچتا ہے نہ کہ ایک دوسرے سے کھنچاؤ‘ بے اعتمادی اور کشیدگی۔ وزیر خارجہ اسحق ڈار کا دورۂ کابل اس لحاظ سے ایک اہم سفارتی پیشرفت ہے کہ اس سے ایک دوسرے سے بات چیت کا موقع ملا ہے۔ دونوں ملکوں کو مکالمے ہی سے اپنے مسائل کا حل تلاش کرنا چاہیے۔افغانستان جو ایک طویل جنگ سے نکلا ہے‘ اسے تعمیر و ترقی کی ضرورت ہے۔مگر اس میں واحد رکاوٹ وہ دہشت گرد گروہ ہیں جو افغانستان کی سرزمین پر ٹھکانے رکھتے ہیں۔ افغان حکومت کی ذمہ داری ہے کہ ان عناصر کی موجودگی کے مضمرات کا خیال کرے کہ کس طرح دہشت گرد نہ صرف خطے کیلئے بلکہ خود افغانستان کیلئے بڑا خطرہ بن چکے ہیں اور پاکستان جیسے مخلص دوست ملک کے ساتھ افغانستان کے تعلقات میں بگاڑ کے بنیادی محرکات ہیں۔ اسحق ڈار کے دورے نے پاک افغان سفارتی تعلقات پر جمی برف کو توڑنے میں مدد کی ہے مگر یہ محض شروعات ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ افغان عبوری حکومت پاکستان کی جانب سے بڑھائی گئی اس زیتون کی شاخ پر کیا ردعمل دیتی ہے۔ اصولی طور پر یہ عملی اور خلوص پر مبنی ردعمل ہونا چاہیے۔ شکایات کو بھی باضابطہ طریقے سے‘ عمدگی کے ساتھ زیر بحث آنا چاہیے‘ مگر اہم بات یہ ہے کہ دونوں ریاستیں ایک دوسرے کے مفادات کا اسی طرح احترام کریں جس طرح کہ اپنے مفادات کا کیا جاتا ہے۔