اداریہ
WhatsApp: 0344 4450229

اقتصادی سفارتکاری اور دیرینہ معاشی عوارض

وفاقی وزیر خزانہ سینیٹر محمد اورنگزیب کا کہنا ہے کہ حکومت اقتصادی سفارتکاری‘ تجارت اور سرمایہ کاری بڑھانے کا عزم رکھتی ہے‘ پاکستان کا مستقبل امداد پر انحصار کے بجائے تجارت اور سرمایہ کاری میں مضمر ہے۔ ایک غیر ملکی بزنس چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ مالیاتی محاذ پر پاکستان نے نمایاں کامیابیاں حاصل کی ہیں‘ زرِ مبادلہ کی شرح میں استحکام آیا ہے‘ عالمی کریڈٹ ریٹنگ ایجنسیوں نے پاکستان کی ریٹنگ میں بہتری کی ہے‘ آئی ایم ایف کے دوسرے جائزے کو کامیابی سے مکمل کیا گیا ہے‘ یہ پیش رفتیں عالمی سطح پر پاکستان کی معاشی پالیسیوں اور اصلاحاتی سمت پر بڑھتے ہوئے اعتماد کو ظاہر کرتی ہیں۔ وفاقی وزیر خزانہ نے ملکی معیشت کی جو تصویر پیش کی ہے‘ معاشی اشاریے اور اعداد و شمار اس کی تصدیق کرتے ہیں۔

آئی ایم ایف نے پاکستانی معیشت کی نمو کا تخمینہ 3.6 فیصد لگایا ہے اور ایشیائی ترقیاتی بینک نے حالیہ رپورٹ میں جی ڈی پی گروتھ کا اندازہ 2.7 فیصد سے بڑھا کر تین فیصد کیا ہے۔ تمام عالمی مالیاتی ادارے پاکستانی معیشت کے عمومی رجحان میں بہتری کا امکان ظاہر کر رہے ہیں۔ افراطِ زر کی شرح دیکھی جائے تو گزشتہ ماہ (نومبر میں) سالانہ افراطِ زر کی شرح 6.1 فیصد ریکارڈ کی گئی‘ جو مئی 2023ء میں 38 فیصد کی بلند ترین سطح پر تھی۔ اسی طرح شرحِ سود بھی‘ جو جون 2023ء میں 22 فیصد کی بلند ترین سطح پر تھی‘ بتدریج کم ہو کر اب ساڑھے دس فیصد پر آ گئی ہے۔ یہ کمی بذاتِ خود اس بات کا اظہار ہے کہ افراطِ زر پہ کنٹرول سمیت دیگر اہداف کامیابی سے حاصل کیے گئے ہیں اور اب پاکستانی معیشت ایک مشکل دور سے نکل کر بہتری کی جانب گامزن ہے۔ تاہم مہنگائی میں کمی‘ معاشی استحکام اور کریڈٹ ریٹنگ میں بہتری کے باوجود بیروزگاری‘ بیرونی قرضوں کا حجم‘ غیر مستحکم برآمدات اور زرعی نمو سمیت کئی دیرینہ چیلنجز اب بھی اقتصادی بنیادوں میں دیمک کی طرح موجود ہیں‘ جن سے نمٹنے کی ضرورت ہے۔

پالیسی سازی سے متعلقہ کام مثلاً اداروں کی نجکاری اور حکومتی اخراجات میں کمی کا کام بھی نہایت سست روی کا شکار ہے۔ ایک بڑا چیلنج توانائی کی بلند قیمتیں ہیں جنہوں نے صنعتی شعبے کو شدید زک پہنچائی ہے۔ بجلی اور گیس کے اونچے نرخوں کی وجہ سے ہماری صنعتوں کی مسابقتی قوت وہ نہیں رہی کہ عالمی منڈی میں اپنی جگہ بنا سکیں۔ اگرچہ اس وقت عالمی منظر نامہ پاکستان کے حق میں ہے‘ امریکہ سے پاکستان علاقائی ممالک میں سب سے بہتر ٹیرف ریٹ لینے میں کامیاب رہا ہے۔ مشرقِ وسطیٰ‘ وسطی ایشیا اور مشرقِ بعید کے ممالک کے ساتھ نئے تجارتی معاہدے طے پا رہے ہیں مگر معاشی جمود اب تک برقرار ہے اور صنعتی مسائل جوں کے توں ہیں‘ جس کی وجہ سے ہم دستیاب مواقع اور موافق ماحول سے کماحقہٗ فائدہ نہیں اٹھا پا رہے۔ دوسری جانب غیر ملکی سرمایہ کاری میں کمی اور جی ڈی پی میں سرمایہ کاری کا کم ہوتا حصہ نئے معاشی خدشات کو جنم دے رہا ہے۔ ٹیکسٹائل کے علاوہ اب خوردنی برآمدات (چاول‘ گوشت‘ فوڈ آئٹمز) کا گراف بھی زوال پذیر ہے۔

برآمدات کیلئے حکومت نے اڑان پاکستان کے تحت اگلے ایک سال اور پانچ سال کیلئے جو اہداف مقرر کیے تھے‘ اس جانب عملی پیش رفت نظر نہیں آ رہی۔ اگر موجودہ معاشی حقائق کا ایک موازنہ ’اڑان پاکستان‘ کے اہداف کے ساتھ ہی کر لیا جائے تو معلوم ہو جائے گا کہ خوش کن اعداد و شمار معیشت کے محض ایک حصے کی تصویر پیش کر رہے ہیں جبکہ دوسری جانب چیلنجز بھی اتنے ہی گمبھیر ہیں۔ امداد پر انحصار کے بجائے تجارت و سرمایہ کاری کا فروغ ایک خوش آئند عزم مگر یہ صبر آزما اور ایک طویل سفر ہے‘ جو قدم بہ قدم سمت کی درستی کا بھی متقاضی ہے۔ اقتصادی سفارتکاری کیلئے محض عزائم کا اظہار ہی کافی نہیں‘ اس کیلئے دیرینہ معاشی عوارض کا حل بھی ضروری ہے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں