ایک اور کشتی حادثہ
پیر کے روز لیبیا کے ساحل کے قریب تارکینِ وطن کی کشتی الٹنے کا سانحہ‘ جس میں چار پاکستانی شہری جاں بحق ہوئے‘ اس تلخ حقیقت کی یاددہانی کراتا ہے کہ گزشتہ چند ماہ کے دوران غیرقانونی طریقوں سے بیرون ملک جانے والے درجنوں پاکستانیوں کی ہلاکت کے باوجوداس رجحان میں کوئی کمی دکھائی نہیں دیتی۔ رواں برس جنوری میں سپین کے قریب ایک کشتی حادثے میں44پاکستانی جاں بحق ہوئے تھے‘ جس کے بعد حکومت نے جعلی ایجنٹوں کے خلاف کارروائیاں تیز کر دیں۔ اگرچہ ان اقدامات کے نتیجے میں کئی انسانی سمگلروں اوران کے سہولت کار سرکاری اہلکاروں کو گرفتاربھی کیا گیا لیکن انسانی سمگلنگ کا یہ نیٹ ورک اتنا منظم ہے کہ اس سب کچھ کے باوجود اس قبیح دھندے کا خاتمہ نہیں کیا جا سکا۔ غیر قانونی سفر کرنے والے اکثر افراد پہلے پاسپورٹ پر افریقی ممالک تک جاتے اور پھر وہاں سے غیر قانونی طور پر یورپ میں داخل ہونے کی کوشش کرتے ہیں‘ لہٰذا اس ضمن میں ایئرپورٹس پر بیرونِ ملک سفر کرنے والوں کی سکریننگ مزید سخت کرنے کے ساتھ ساتھ دیگر سفری قواعد و ضوابط پر بھی عملدرآمد یقینی بنایا جانا چاہیے۔ علاوہ ازیں اُس سقم کی تلاش بھی ازحد ضروری ہے جس کے سبب ایجنٹوں کے خلاف جاری کارروائیوں کے باوجود اس طرح کے واقعات رکنے میں نہیں آ رہے۔