اوورسیز پاکستانی، ملک کا سرمایہ
وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ ایک کروڑ سے زائد اوور سیز ہمارے سفیراور ہمارے سروں کا تاج ہیں۔ اسلام آباد میں سمندر پار پاکستانیوں کے پہلے سالانہ کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم کا کہنا تھا کہ ملک میں جو معاشی استحکام آ رہا ہے یہ اوور سیز کی شبانہ روز محنت اور ٹیم ورک کا نتیجہ ہے۔ اس موقع پر آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے کہا کہ اوور سیز صرف پاکستان کے سفیر ہی نہیں بلکہ یہ وہ روشنی ہے جو اقوام عالم پر پڑتی ہے۔ آرمی چیف نے کہا کہ جو لوگ برین ڈرین کا بیانیہ بناتے ہیں وہ سُن لیں کہ یہ برین ڈرین نہیں بلکہ برین گین ہے اور بیرونِ ملک مقیم پاکستانی اس کی عمدہ مثال ہیں۔ وزیر اعظم اور آرمی چیف کے بیانات کی تائید مارچ 2025ء میں موصول ہونے والی چار ارب ایک کروڑ ڈالر کی ریکارڈ ترسیلاتِ زر سے ہوتی ہے۔ یہ ترسیلاتِ زر گزشتہ مارچ کی ترسیلاتِ زر سے 26 فیصد زیادہ جبکہ پچھلے پانچ سالوں کی ماہانہ اوسط سے دوگنا ہیں۔ ترسیلاتِ زر میں یہ کثیر اضافہ اس امر کا اظہار ہے کہ بیرونِ ملک پاکستانی نہ صرف اپنے اپنے مقیم ملکوں کی معیشت میں قابلِ ذکر حصہ ڈال رہے ہیں بلکہ وقتی سیاسی مفادات سے بالاتر ہو کر قانونی ذرائع سے یہ رقم پاکستان بھجوا رہے ہیں۔ رواں مالی سال اب تک 28 ارب ڈالر کی ترسیلاتِ زر آ چکی ہیں جبکہ مالی سال کے اختتام تک یہ حجم 38 ارب ڈالر تک پہنچنے کا تخمینہ لگایا جا رہا ہے۔ یہ رقم نہ صرف کرنٹ اکائونٹ کو سرپلس رکھنے میں معاون ثابت ہو رہی ہے بلکہ بیرونی ادائیگیوں کے دبائو کو کم کرنے اور زرِمبادلہ کے ذخائر کو مستحکم رکھنے میں بھی اس کا کلیدی کردار ہے۔ اس وقت ملک کا سب سے بڑا مسئلہ معاشی عدم استحکام ہے اور اوور سیز پاکستانی اس مسئلے کے حل میں حتی المقدور اپنا کردار ادا کر رہے ہیں۔ آسٹریلیا سے برطانیہ اور سعودی عرب سے امریکہ تک‘ تمام دنیا میں پھیلے اوور سیز بیرونی دنیا کیلئے پاکستان کا پہلا تعارف ہیں‘ جو دنیا کے ہر کونے میں اپنی محنت‘ جفاکشی اور غیرمتزلزل عزم کی بدولت اپنا مقام پیدا کر چکے ہیں۔ یورپی پارلیمانوں سے لے کر برطانیہ کے ہائوس آف لارڈز اور امریکی مقننہ تک‘ سمندر پار پاکستانی ہر جگہ اپنی سیاسی موجودگی بھی منوا چکے ہیں۔ ان کی وطن عزیز سے غیرمشروط محبت اور اس کیلئے ہزاروں میل دور بیٹھ کر ان کی شبانہ روز محنت سے انکار کسی بھی طور ممکن نہیں۔ انہی خدمات کی بنا پر وزیراعظم نے ہر سال پندرہ اوور سیز پاکستانیوں کو سول ایوارڈ دینے کا بھی اعلان کیا ہے۔ اس سے سمندر پار موجود اہلِ وطن کی حوصلہ افزائی ہو گی اور غیر ملکی سرمایہ کاروں کو بھی راغب کیا جا سکے گا۔ اگر اوور سیز پاکستانیوں کی بات کی جائے تو انہیں سفارتخانوں اور ایئرپورٹس پر بدسلوکی اور نظامِ انصاف کی سست روی کی شکایات رہی ہیں۔ اس ضمن میں آن لائن خصوصی عدالتوں کا قیام ایک مثبت پیشرفت ہو گی۔ محکمانہ شکایات کے حوالے سے بھی ایک خصوصی سیل قائم کر کے سمندر پار پاکستانیوں کی شکایات کا ازالہ کیا جا سکتا ہے۔ انفرادی حیثیت میں سمندر پار پاکستانی پاکستان میں سب سے بڑے سرمایہ کار ہیں‘ جو ملکی معیشت کو رواں رکھنے میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں مگر آج تک اس اثاثے کو یکجا کرنے اور ملکی و قومی مفاد میں استعمال کرنے کی فکر پیدا نہیں ہو سکی۔ اگر امریکہ کی بات کی جائے تو وہاں صہیونی اور بھارتی لابی کو بہت مضبوط سمجھا جاتا ہے حالانکہ پاکستانی نژاد ڈاکٹروں اور کاروباری شخصیات کا بھی خاصا رسوخ ہے مگر وہ اس طرح فعال اور متحرک نہیں جس طرح دیگر کمیونٹیز کے افراد ہیں۔ کینیڈا‘ برطانیہ اور دیگر یورپی ممالک میں بھی پاکستانی نژاد بااثر اور اعلیٰ سماجی مقام کے حامل ہیں مگر کبھی بھی اس قوت کو ملکی و قومی نقطہ نظر سے نہیں دیکھا گیا۔ اس ضمن میں اوور سیز کنونشن درست سمت میں پہلا قدم ہے ‘ جو سمندر پار پاکستانیوں کو مجتمع کرنے اور بیرونِ ملک رہتے ہوئے انہیں ملکی مفاد کیلئے بروئے کار آنے کی تحریک دے سکتا ہے۔