بھارتی آبی جارحیت کے مضمرات
بھارت کی جانب سے دریائے چناب کے پانی کے بہاؤ کو کنٹرول کرنے کا عمل کھلی جارحیت اور سندھ طاس معاہدے کی سنگین خلاف ورزی ہے۔ اس بین الاقوامی آبی معاہدے کو تعطل میں ڈالنے کا بھارت کو قطعاً اختیار نہیں اور اس حوالے سے حکومت پاکستان کی جانب سے دوٹوک مؤقف سامنے آ چکا ہے اور پاکستان کی جانب سے پانی میں رکاوٹ ڈالنے کے کسی بھی بھارتی اقدام کو جنگ کے مترادف قرار دیا گیا ہے اور پاکستان کے چوبیس کروڑ لوگوں کیلئے لائف لائن کی حیثیت رکھنے والے دریائے سندھ اور معاون دریاؤں کے پانی میں کسی بھی رکاوٹ کے سنگین نتائج سے خبردار کیا گیا ہے۔ مگر بھارتی حکومت کے حالیہ اقدامات سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ نہ صرف وقتی طور پر بلکہ طویل مدتی بنیادوں پر بھی پانی کے تنازع کوبھڑکانے کی نیت رکھتی ہے۔ دریائے چناب کے پانی میں 90فیصد کے قریب رکاوٹ اس کا ایک واضح ثبوت ہے۔ چناب ہمارے آبپاشی نظام کیلئے کلیدی اہمیت رکھتا ہے اور اسکی نہریں بشمول اپر چناب اور لوئر چناب وسطی پنجاب کے زرعی اہمیت والے علاقوں کو سیراب کرتی ہیں۔ یہ علاقے اعلیٰ معیار کے چاول کی پیداوار کیلئے جانے جاتے ہیں اور اچھی قسم کا باسمتی چاول اسی پانی سے سیراب ہونیوالے کھیتوں میں اُگتا ہے؛ چنانچہ ان دنوں جب پنجاب میں چاول کی فصل کی تیاری ہے بھارتی آبی جارحیت کے اثرات معمولی نہیں ہیں۔ عالمی مارکیٹ میں پاکستان کے اعلیٰ قسم کے چاول نے بھارتی پیداوار کو دفاعی پوزیشن پر مجبور کر دیاہے۔ اس سال کے شروع میں آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ نے بھارت کی اُس درخواست کو مسترد کر دیا تھا جس میں اُس نے باسمتی چاول کی برانڈنگ اور پیداوار کے خصوصی حقوق کو تسلیم کرنے کی اپیل کی تھی۔ پاکستان میںچاول کی فصل کی بوائی کی تیاریوں کے دنوں میں دریائے چناب کا پانی روکنے سے بھارتی ہدف پاکستان کی زرعی پیداوار ہے۔ اگرچہ یہ مانا جاتا ہے کہ بھارت یہ پانی زیادہ دیر تک روک رکھنے کا متحمل نہیں کیونکہ دریائے چناب پر اسکے آبی ذخائر کی گنجائش محدود ہے‘ تاہم خبرساں ادارے روئٹرز کی یہ خبرتشویش کا باعث ہے کہ بھارت نے مقبوضہ کشمیر کے علاقے میں تین ہزار میگا واٹ سے زائد کپیسٹی کے چار پن منصوبوں کی تعمیر کا کام تیز کر دیا ہے۔ ان میںایک ہزار میگاواٹ کا پکل ڈل‘624 میگا واٹ کا کیرو‘540 میگاواٹ کا کواراور850 میگاواٹ کا رتلے پن بجلی گھر شامل ہے۔ یہ خبریں بھی گردش میں ہیں کہ بھارتی حکومت دریائے چناب پر مذکورہ منصوبوں کے علاوہ بھی کچھ منصوبوں کا ارادہ رکھتی ہے اور مجموعی طور پر یہ کم ازکم سات منصوبے بتائے جارہے ہیں۔ بھارتی حکومت کے ان عزائم سے پہلگام فالس فلیگ کارروائی کا کچا چٹھا بھی کھل جاتا ہے کہ یہ ایک خود ساختہ واردات تھی جس کا مقصد مودی حکومت کے سندھ طاس معاہدے اور پاکستان کے پانی پر جارحانہ مقاصد کو آگے بڑھانا تھا۔ اس وقت کی اطلاعات کے مطابق بھارتی رکاوٹوں کی وجہ سے دریائے چناب میں پانی کی آمد نہ ہونے کے برابر رہ گئی ہے۔ ہوسکتا ہے آنیوالے کچھ دنوں میں بھارت کی جانب سے ذخیرہ کیے گئے پانی میں سے کچھ چھوڑاجائے اور پاکستان کو آبی حملے سے نقصان پہنچانے کی کوشش کی جائے‘ تاہم اس صورتحال کو پانی کے معاملے پر بھارت کیساتھ تصادم کا نقطہ آغاز سمجھنا چاہیے۔ سندھ طاس معاہدہ جو پاک بھارت تین جنگوں اور بے شمار جھڑپوں کے باوجود برقرار رہا‘ مودی سرکار نے اس پر حملہ کر کے پاکستان اور بھارت کو ایک خوفناک روش پردھکیل دیا ہے۔ پاکستان کیلئے ضروری ہے کہ اپنے پانی کے دفاع کیلئے کثیر جہتی حکمت عملی اختیار کی جائے۔ عسکری سطح پر بھی اور سفارتی سطح پر بھی۔قوی امید ہے کہ دنیا بھارت کو سندھ طاس معاہدے کو روندنے کی اجازت نہیں دے گی‘ بصورت دیگر جوہری تصادم کا خطرہ بڑھ جائے گا۔