اداریہ
WhatsApp: 0344 4450229

سیز فائر، مثبت پیش رفت

پاکستان اور بھارت میں تین روزہ مسلح تصادم کے بعد سیز فائر کا اعلان خوش آئند اور خطے کے امن کیلئے مثبت پیش رفت ہے۔ سات مئی کی رات پاکستان کی شہری آبادیوں پر بھارتی میزائل حملوں سے شروع ہونے والی اس کشیدگی میں 30سے زائد پاکستانی شہید اور 50کے قریب زخمی ہوئے۔ بھارت کی جانب سے یہ حرکت پاکستان کی خودمختاری پر ایک جارحانہ وار تھا جس کا بروقت اور بھرپور جواب دیا گیا اور پاک فضائیہ کی کارروائیوں میں بھارت کے جدید ترین رافیل اور دیگر طیاروں کو مار گرایا گیا۔ اس سے اگلے روز بھارت نے جارحیت کا نیا انداز اختیار کرتے ہوئے اسرائیلی ساختہ ڈرون طیاروں سے حملے شروع کر دیے مگران ڈرونز کو بھی سکیورٹی اداروں نے ڈھونڈ ڈھونڈ کر ختم کیا۔اس معرکے کے چوتھے روز آپریشن ’’ بنیان مرصوص‘‘ کی کارروائیاں فیصلہ کن ثابت ہوئیں‘ جب پاک فضائیہ کے جے ایف17 لڑاکا طیاروں کے ذریعے ہائپرسونک میزائلوں‘ فتح بیلسٹک میزائلوں اور مسلح ڈرونز سے بھارت میں 26سے زائد مقامات کو نشانہ بنایا گیا۔ان میں پٹھان کوٹ اور ادھم پور ائیر فیلڈز‘ آدم پور ایئر فورس سٹیشن‘ جہاں ایس400ائیر ڈیفنس سسٹم تعینات تھا‘ تباہ کر دیا گیا۔ علاوہ ازیں بیاس اور نگروٹہ میں برہموس ڈپو اور اُڑی اور راجوری میں بریگیڈ تنصیبات بھی تباہ کر دی گئیں۔ جالندھر میں آدم پور ایس400 یونٹ پر بھی حملے کی اطلاعات موصول ہوئیں۔ جنوبی ایشیا کے دو ایٹمی ممالک میں بڑھتا ہوا یہ تصادم بہرحال خطے اور دنیا کے امن کیلئے خطرہ تھا؛ چنانچہ عالمی طاقتوں اور دوست ممالک کی جانب سے اس صورتحال میں مداخلت اور قیام امن کی کوششوں میں تیزی دیکھنے میں آئی اورہفتے کی سہ پہر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک ٹوئٹ کے ذریعے دونوں ملکوں کی جنگ بندی کا اعلان کرتے ہوئے دونوں ملکوں کی قیادت کو مبارکباد دی جنہوں نے امریکی ثالثی میں بات چیت کے بعد مکمل اور فوری جنگ بندی پر اتفاق کیا۔ امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے اپنے ٹوئٹ میں کہا کہ مجھے یہ اعلان کرتے ہوئے خوشی ہو رہی ہے کہ پاکستان اور بھارت کی حکومتوں نے فوری جنگ بندی پر اتفاق کیا ہے اور ایک غیر جانبدار مقام پر وسیع مسائل پر بات چیت شروع کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ امریکی وزیر خارجہ کے ٹوئٹ کے یہ الفاظ خاص اہمیت کے حامل ہیں اور اس خطے میں پائیدار امن کا راستہ متعین کرتے ہیں ۔ پاکستان اور بھارت میں طویل مدت سے زیر التوا اور حل طلب مسائل پر بات چیت نہ کی گئی تو دونوں ملکوں میں کشیدگی کے اندیشے پہلے سے شدت اختیار کر نے کے امکان کو رد نہیں کیا جاسکتا۔ اگر پچھلے کچھ برس کی صورتحال کا جائزہ لیں تو کشیدگی اس قدر تیزی سے بڑھتی چلی گئی کہ 2019 ء سے اب تک پاکستان اور بھارت دو بڑے تصادم کا سامنا کر چکے ہیں۔ اس سیز فائر کے بعد ضرورت اس امر کی ہے کہ دونوں ملکوں میں بات چیت کے ذریعے تنازعات کے حل کی سنجیدہ کوشش کی جائے ۔ کشمیر کا مسئلہ دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی کی بنیادی وجہ ہے‘ جس کا حل اقوام متحدہ کی قراردادوں اور کشمیری عوام کی منشا کے مطابق ہونا چاہیے۔ تاریخی مسئلہ کشمیر کے علاوہ حالیہ دنوں سندھ طاس معاہدے کو معطل کرنے اور پاکستان کے حصے کا پانی روکنے کی بڑھک مار کر بھارت نے ایک اور تنازع کھڑا کیاہے‘ حالانکہ یہ ایک طے شدہ بین الاقوامی معاہدہ ہے جسے چھیڑنے کا کوئی جواز نہیں اور نہ ہی اسے برداشت کیا جاسکتا ہے۔ عالمی برادری کو چاہیے کہ دونوں ممالک کو مذاکرات کی میز پر لانے میں اپنا کردار ادا کرے اور دو طرفہ مسائل کا متفقہ حل نکالا جائے۔ یہ جنوبی ایشیا کے امن اور خوشحالی کیلئے ضروری ہے۔ پاکستان اور بھارت کا اپنا مفاد بھی اسی میں ہے کہ مشترکہ مسائل کو حل کرنے کی سنجیدہ کوششیں کریں اور جنگ کے بجائے امن کے راستے کا انتخاب کریں۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں