اداریہ
WhatsApp: 0344 4450229

امن‘ مذاکرات اور بقائے باہمی

افواجِ پاکستان کی جانب سے بھارتی جارحیت کے جواب میں شروع کیے گئے آپریشن بُنیانٌ مرصوص کی تکمیل کا اعلان کر دیا گیا ہے جبکہ 22 اپریل سے 10 مئی تک معرکے کو ’معرکہ حق‘ کا نام دیا گیا ہے۔ دوسری جانب پاکستان اور بھارت کے ڈی جی ملٹری آپریشنز کے ہاٹ لائن رابطے کا پہلا رائونڈ مکمل ہو گیا ہے جس میں پاکستان کے ڈی جی ایم او میجر جنرل کاشف عبداللہ اور ان کے بھارتی ہم منصب لیفٹیننٹ جنرل راجیو گھئی نے سیز فائر کو جاری رکھنے پر اتفاق کیا۔ دو روز قبل ہونے والی جنگ بندی کے بعد ڈی جی ایم اوز کا یہ پہلا رابطہ تھا‘ اب بات چیت کا اگلا رائونڈ آئندہ 48 گھنٹوں میں ہوگا۔ یہ امر خوش آئند ہے کہ دونوں ملکوں کی عسکری قیادت مسائل کو بات چیت سے حل کرنے کی جانب گامزن ہے‘ یہی رویہ سیاسی قیادت کو بھی اپنانا چاہیے۔ پاکستان تو باہمی مسائل کو مذاکرات کے ذریعے حل کرنے کی بار ہا پیشکش کر چکا ہے مگر جنگی جنون میں مبتلا بھارتی قیادت امن اور مذاکرات کی بات سننے کو تیار نہیں۔ گزشتہ روز بھی بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے قومی خطاب میں جو لب و لہجہ ا ختیار کیا اس سے مستقبل میں کشیدگی کم ہونے کی توقعات پر اوس پڑگئی ہے۔ نریندر مودی کا کہنا تھا کہ ’’ٹیرر اور ٹاک ایک ساتھ نہیں چل سکتے، ٹیرر اور ٹریڈ ایک ساتھ نہیں چل سکتے‘‘۔حقیقت یہ ہے کہ اگر ’’ٹاک‘‘ کا سلسلہ چلتا رہے تو ٹیرر سمیت تمام مسائل کے حل کی راہ نکل آتی ہے۔ اگر بات چیت کا سلسلہ ہی مفقود کر دیا جائے تو مسائل کیسے حل ہو سکتے ہیں؟ بالفرض اگر دس مئی کو پاک بھارت ڈی جی ایم اوز میں رابطہ نہ ہوتا تو جنگ بندی کیسے عمل میں آتی اور پھر یہ سلسلہ کہاں جا کر تھمتا؟ مذاکرات سے فرار کی مودی سرکار کی ہٹ دھرمی ہی مسائل کے حل میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ اس حوالے سے یورپ کی مثال دنیا پر عیاں ہے۔ جنوبی ایشیا میں لگ بھگ دنیا کی ایک چوتھائی آبادی مقیم ہے مگر اس خطے کی جی ڈی پی دنیا میں 33ویں نمبر پر ہے۔ محدود فکر کی حامل قیادت کے غلط فیصلوں کی قیمت خطے کے عوام کو چکانا پڑ رہی ہے۔بھر پور وسائل کے باوجود یہ خطہ غربت‘ پسماندگی اور بھوک جیسے مسائل کا مقابلہ نہیں کر پا رہا۔ وجہ صرف یہ ہے کہ اب تک اس خطے میں امن‘ بقائے باہمی اور ترقی کی راہ پر ایک ساتھ آگے بڑھنے کی سوچ نہیں پنپ سکی۔ اگر باہمی مسائل کا پُرامن حل نکال لیا جائے تو یہ خطہ دنیا میں تیز رفتار ترقی کی مثال قائم کر سکتا ہے۔ یہی اس خطے کے عوام کی بھی خواہش ہے کہ جنگ کو چھوڑ کر امن کی راہ اپنائی جائے۔ امریکہ پاکستان اور بھارت کو جنگ بندی کے بعد تجارت میں مدد دینے کی پیشکش کر رہا ہے‘جنگ بندی کے بعد کاروباری ہفتے کے پہلے روز دونوں ملکوں سمیت پورے خطے کی سٹاک مارکیٹ میں مثبت رجحان دیکھنے کو ملا ہے۔کے ای 100انڈکس میں گزشتہ روز دس ہزار پوائنٹس سے زائد کا اضافہ دیکھا گیا جو ایک دن میں سب سے بڑا اضافہ ہے۔پاک بھارت جنگ بندی کی اہم پیشرفت سٹاک مارکیٹ میں زبردست تیزی کا بڑا محرک ہے۔ اس کیساتھ کچھ اور مثبت عوامل بھی جڑ گئے ہیں جیسا کہ آئی ایم ایف کی جانب سے پاکستان کیلئے قرض اجرا کی منظوری‘ امریکی صدر کی جانب سے تجارتی تعلقات کو فروغ دینے کا عندیہ‘ امریکہ اور چین میں ٹیرف پر مذاکرات میں مثبت پیشرفت۔یہ سبھی عوامل اس خطے میں صورتحال کی مجموعی بہتری کی جانب اشارہ کرتے ہیں۔اسے عوامی اور کاروباری حلقوں کی امن پسندی سے تعبیر کیا جا سکتا ہے کہ کوئی بھی جنگ یا غیر معمولی صورتحال کا خواہاں نہیں۔ ضروری ہے کہ اب طاقت اور جارحیت کے بجائے امن اور مذاکرات کی راہ اپنائی جائے۔ بھارتی قیادت کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ سات دہائیوں سے جو مسائل طاقت کے استعمال سے حل نہیں ہو سکے‘ وہ مزید طاقت کے استعمال سے زیادہ بگاڑ کی طرف جائیں گے۔ ایک ہی تجربے کا مختلف نتیجہ نہیں نکل سکتا۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں