اداریہ
WhatsApp: 0344 4450229

کشمیر،امن اور تجارت

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے پاک بھارت جنگ بندی کی کوشش کو خارجہ امور میں اپنی زندگی کا سب سے بڑا کارنامہ قرار دیا ہے۔اگلے روز امریکی ٹیلی ویژن چینل’ فاکس‘ کے ساتھ انٹرو یو میں صدر ٹرمپ کا کہنا تھا کہ جوہری صلاحیت کے حامل دو ہمسایہ ملکوں میں صورتحال اس قدر بگڑ چکی تھی کہ قریب تھا کہ یہ جنگ ایک جوہری تصادم میں تبدیل ہوجائے۔ ان حالات میں مَیں نے کہا ‘ جنگ کو چھوڑیں تجارت کی بات کرتے ہیں۔ امریکی صدر کا یہ بھی کہنا تھا کہ وہ تجارت کو دشمنیاں ختم کرنے اور امن قائم کرنے کیلئے استعمال کررہے ہیں۔ اپنے اس انٹر ویو میں صدر ٹرمپ نے پاکستان کے حوالے سے بڑا مثبت اور حقیقت پسندانہ نقطہ نظر اختیار کیا اور پاکستانیوں کی محنت اور ذہانت کی تعریف کی اور پاکستان کے ساتھ تجارت بڑھانے میں دلچسپی کا اظہار کیا۔ پاکستان کے حق میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے یہ خیالات اور تحسین و ستائش پاکستان کی عالمی اہمیت کو واضح کرتی اورپاک امریکہ تعلقات کی بہتری اور وسعت کے امکان پر روشنی ڈالتی ہے ۔ ضروری ہے کہ ان امکانات کا فائدہ اٹھایا جائے ۔ امریکہ اس وقت پاکستان کا سب سے بڑا تجارتی شراکت دار ہے۔ گزشتہ برس پاکستان اور امریکہ کی مجموعی تجارت 7.3 ارب ڈالر تھی۔اس میں سے 2.1 ارب ڈالر کی مصنوعات امریکہ نے پاکستان کو بر آمد کیں جبکہ 5.1 ارب ڈالر کی اشیا پاکستان سے امریکہ بھیجی گئیں۔ تاہم امریکی صدر کے الفاظ سے تاثر ملتا ہے کہ پاکستان کو امریکہ میں تجارت بڑھانے کے مزیدمواقع مل سکتے ہیں؛ ضروری ہے کہ حکومتی سطح پر ایسے اقدامات کیے جائیں جو تجارت کے فروغ میں مددگار ثابت ہوں۔ اگرچہ صدر ٹرمپ نے آتے ہی جن ممالک پر اضافی درآمدی ڈیوٹی عائد کی ان میں پاکستان بھی شامل تھا۔ پاکستانی مصنوعات پر 29فیصد ٹیرف عائد کیا گیا۔حالانکہ یہ دیگر ایشیائی ممالک کے مقابلے میں کم ہے مگر وزارتِ تجارت کے اندازے کے مطابق اس ٹیرف سے بھی پاکستان کو ممکنہ طور پر ایک ارب ڈالر کا نقصان ہو سکتا ہے۔ بہرکیف گفت و شنید کا عمل شروع ہونے کے بعد امریکہ چین ٹیرف وار بھی تھم چکی ہے‘ پاکستان پر عائد تجارتی ٹیرف پر عمل درآمد بھی جولائی تک معطل ہے اور حکومت کی جانب سے امریکہ سے باضابطہ رابطوں اور تجارتی رکاوٹیں دور کرنے پر آمادگی سے صورتحال میں مثبت تبدیلی کا قوی امکان ہے۔حکومت کیلئے اہم یہ ہے کہ امریکہ کے ساتھ تجارت بڑھانے اور سرمایہ کاری لانے کیلئے مؤثر اقدامات کیے جائیں۔ امریکی سرمایہ کاری‘ تجارتی فروغ اور صنعتکاری معاشی استحکام کی کوششوں میں پاکستان کیلئے ضروری ہے۔ مگر معیشت اور تجارت کا فروغ امن و استحکام سے مشروط ہے‘ اور ہمارے خطے میں دیرپا امن کیلئے پاک بھارت تنازعات کاحل ناگزیر ہے؛ چنانچہ صدر ٹرمپ کی تجارتی فروغ کی پیش کش سے بھی زیادہ اہمیت مسئلہ کشمیر پر ان کی ثالثی کی پیش کش کی ہے۔ صدر ٹرمپ نے اپنے سابقہ دور میں بھی اس حوالے سے کردار ادا کرنے کی بات کی تھی۔ اگر جنوبی ایشیا کا یہ دیرینہ مسئلہ صدر ٹرمپ کے ہاتھوں حل ہو جائے تو یہ دنیا کے اس حصے کیلئے ایک ایسا تاریخی اقدام ہو گا جو پاک بھارت جنگوں کے خطرے کو فیصلہ کن حد تک کم کر دے گا ‘ کیونکہ دونوں ملکوں میں ‘ تقسیم کے وقت سے آج تک سبھی جنگوں اور مسلح جھڑپوں کی وجہ مسئلہ کشمیر ہے۔ وقت کے ساتھ دونوں ملکوں کی دفاعی قوت میں اضافہ ہوتا چلا گیا یوں تصادم کے خطرات بڑھتے چلے گئے یہاں تک کہ حالیہ جھڑپ کو امریکی صدر نے جوہری تصادم کے اندیشے کا سبب قرار دیا ہے۔ امریکی صدر کی ثالثی سے جنگ بندی عمل میں آئی تاہم مسئلہ کشمیر کے ہوتے ہوئے پاک بھارت جنگوں کے خطرات بہرطور رہیں گے۔ پاک بھارت پائیدار امن اور جوہری تصادم کے اندیشوں کا خاتمہ مسئلہ کشمیر کے حل سے مشروط ہے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں