پاکستان‘ چین‘ افغانستان اور سی پیک
نائب وزیراعظم اور وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے گزشتہ روز اسلام آباد میں اپنے دورۂ چین کے حوالے سے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا ہے کہ چین نے پاکستان کی سالمیت اور خود مختاری کی حمایت کی ہے‘ پاکستان‘ چین اور افغانستان کا مشترکہ فیصلہ ہے کہ خطے سے دہشت گردی کو ختم کرنا ہے‘ چین سی پیک ٹو کو شروع کرنے کیلئے تیار ہے جس کو افغانستان تک رسائی دی جائے گی۔ وزیر خارجہ کا یہ دورہ اس لحاظ سے اہم ہے کہ یہ ایسے وقت میں ہوا جب کچھ روز پہلے پاکستان اور بھارت ایک مختصر نوعیت کی جنگ کا سامنا کر چکے جبکہ بھارت سفارتی حمایت کے حصول کیلئے بڑے پیمانے پر مہم چلا رہا ہے اور پارلیمانی ارکان پر مشتمل سات مختلف وفود کو امریکہ‘ یورپ‘ افریقہ اور مشرقِ وسطیٰ کے 32 ممالک کا دورہ کرنے اور انہیں بھارتی اقدامات پر بریفنگ کا ٹاسک دیا گیا ہے۔ ان ممالک میں چین بھی شامل ہے لہٰذا ایسے وقت میں چین جیسی ایک بڑی عالمی قوت کی جانب سے مسئلہ کشمیر پر پاکستان کی حمایت کا اعادہ اور پاکستان کی سالمیت اور تحفظ کیلئے ہر ممکن معاونت کا اعلان بلاشبہ ایک بڑی سفارتی کامیابی ہے۔ وزیر خارجہ کے دورۂ چین کی ایک قابلِ ذکر بات 21مئی کو بیجنگ میں پاکستان‘ چین اور افغانستان کے وزرائے خارجہ کا سہ فریقی اجلاس ہے‘ جس میں تینوں ممالک نے خطے میں استحکام‘ باہمی تعاون‘ اقتصادی روابط اور سکیورٹی امور پر تفصیلی تبادلہ خیال کیا اور تجارت‘ ٹرانسپورٹ‘ سرحدی تعاون اور عوامی رابطوں کو مزید مضبوط بنانے اور ’سی پیک ٹو‘ پر بھی اتفاقِ رائے کیا گیا جسے افغانستان تک توسیع دی جائے گی۔ قبل ازیں 19اپریل کو وزیر خارجہ اسحاق ڈار کے دورۂ کابل کے دوران بھی افغانستان سے تجارت اور ٹرانسپورٹ سمیت علاقائی‘ سرحدی و باہمی تعاون کے متعدد معاہدے کیے گئے تھے۔ یہ ایک بدیہی حقیقت ہے کہ افغانستان ایک لینڈ لاکڈ ملک ہے جس کے پاس کوئی ساحل نہیں ہے۔ اس اعتبار سے اسکی بحری تجارت کا بنیادی انحصار پاکستان کی بندرگاہوں پر ہے۔ سی پیک اور گوادرہ بندرگاہ افغان بحری تجارت کیلئے ایک لائف لائن ثابت ہو سکتی ہے۔ اسی طرح پاکستان وسط ایشیا تک زمینی رسائی کیلئے افغانستان کی راہداری کا خواہاں ہے۔ مجموعی طور پر دونوں ملکوں میں باہم مل کر چلنے کے اتنے امکانات ہیں کہ انہیں نظر انداز نہیں کیا جا سکتا مگر افغانستان کی سرزمین کا ایک عرصے سے پاکستان کے خلاف استعمال ایسی بڑی رکاوٹ ہے جس نے گزشتہ دو‘ تین دہائیوں میں پاک افغان تعلقات کو زیادہ پنپنے نہیں دیا۔ غیر ملکی افواج کے انخلا اور طالبان کے دوبارہ اقتدار حاصل کرنے کیساتھ پاکستان میں یہ امید پائی جاتی تھی کہ افغانستان میں سیاسی استحکام کے بعد اسکی زمین کا پاکستان کے خلاف استعمال کا سلسلہ بند ہو جائے گا اور افغانستان کی عبوری قیادت کی جانب سے بھی بارہا اس کی یقین دہانی بھی کرائی گئی مگر یہ صورتحال مزید بگاڑ کا شکار ہوئی اور طالبان کے عرصہ اقتدار میں پاکستان میں مغربی سرحدی مسائل اور دہشت گردی کے واقعات میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ یہ صورتحال پاک افغان تعلقات اور باہمی اعتماد کیلئے تباہ کن ثابت ہوئی اور اسی بنا پر دوطرفہ تعلقات بھی بتدریج سرد مہری کا شکار ہوتے چلے گئے۔ اب امید ہے کہ چین کے دارالحکومت میں پاکستان‘ چین اور افغانستان کا سہ فریقی وزرائے خارجہ اجلاس علاقائی تعاون اور تجارتی امکانات کو بڑھانے میں معاون ثابت ہو گا اور سی پیک ٹو میں افغانستان کی شمولیت علاقائی تحفظ کو مضبوط اور باہمی تجارت کو مزید وسیع کرنے کا سبب بنے گی۔ اس حوالے سے تمام فریقوں کو امن وامان کے معیاری ماحول پر بھی خصوصی توجہ دینا ہو گی۔پاکستان اور چین کی دفاعی و معاشی شراکت داری اور سی پیک میں افغانستان کی شمولیت سے مشترکہ دشمن آتشِ زیر پا ہے۔ لہٰذا اس کی سازشوں سے چوکنا رہتے ہوئے علاقائی ترقی اور خوشحالی کے ان منصوبوں پر کام کی رفتار کو تیز کرنا ہو گا۔