اداریہ
WhatsApp: 0344 4450229

آئی ایم ایف سے مذاکرات

پاکستان اورآئی ایم ایف کے درمیان آئندہ مالی سال کے بجٹ اہداف پر مکمل اتفاقِ رائے نہیں ہوسکا تاہم اس حوالے سے مذاکرات جاری رکھنے کا اعلان کیا گیا ہے۔ آئی ایم ایف کی طرف سے جاری کیے گئے اعلامیہ کے مطابق مالی سال 2026 ء کے بجٹ‘مجموعی معاشی پالیسیوں اور جاری اصلاحاتی ایجنڈے پر تعمیری گفتگو ہوئی اورپائیدار ترقی اور کاروباری مواقع کی بہتری کیلئے اصلاحات زیر غور آئیں‘ مہنگائی پر قابو پانے کیلئے سخت مانیٹری پالیسی جاری رکھنے اور مہنگائی کو پانچ سے سات فیصد کی سطح پر برقرار رکھنے پر بھی زور دیا گیا۔آئی ایم ایف کا مؤقف ہے کہ پاکستان کو معاشی استحکام کیلئے محصولات میں اضافہ‘ خسارے میں کمی اورمالیاتی نظم و ضبط یقینی بنانا چاہیے۔ اس کیلئے سب سے اہم پہلو ٹیکس اصلاحات ہیں جن میں ٹیکس چوری روکنے کا مؤثر نظام وضع کرنے ‘ غیر رسمی شعبوں پر ٹیکس لاگو کرنے اورزرعی آمدن کو ٹیکس نیٹ میں لانے جیسے اقدامات پر زور دیا جا تاہے۔ پاکستان کی معیشت کا ایک بڑا حصہ‘ خاص طور پر ہول سیل اور پرچون فروشی کا شعبہ اور زراعت ابھی تک مکمل طور پر دستاویزی نہیں ہیں جس کی وجہ سے ٹیکس وصولی کی استعداد محدود ہے۔ زرعی آمدن پر ٹیکس کا معاملہ کئی دہائیوں سے مصلحتوں کا شکار ہے اور آئی ایم ایف کا یہ مطالبہ اس لحاظ سے قابلِ فہم ہے کہ بڑے زمینداروں کی زرعی اراضی سے حاصل ہونے والی سالانہ کروڑوں روپے کی آمدن کو ٹیکس سے استثنیٰ حاصل رہے گا تو اس کا بوجھ تنخواہ دار طبقے یا دیگر شعبوں پر پڑتا رہے گا۔ ٹیکس نیٹ بڑھانے کی ضرورت اور اہمیت تو ظاہر و باہر ہے ‘ البتہ اس کیلئے کیا ضوابط بروئے کار لائے جائیں یا محصولات کی شرح کیا ہو‘ اس پر ضرور بات ہونی چاہیے۔ حکومت نے عندیہ دیا ہے کہ مالی سال 2026ء کے بجٹ میں تنخواہ دار طبقے کو ریلیف فراہم کرے گی اور بجٹ میں ایسے شعبوں کیلئے ٹیکس میں رعایتیں دی جائیں گی جو ملکی ترقی کیلئے اہم ہیں‘ مثلاً صنعت‘ آئی ٹی‘ برآمدات اور قابلِ تجدید توانائی۔ہمارے ہاں ٹیکس نیٹ محدود ہونے کی وجہ سے جن شعبوں پر بہت دباؤ ہے تنخوا ہ دار طبقہ ان میں سر فہرست ہے ۔ رواں مالی سال کے پہلے نو ماہ کے دوران تنخواہ دار طبقے نے 391ارب روپے انکم ٹیکس دیا جبکہ پرچون فروشوں نے 26 ارب روپے اورنان کارپوریٹ اور کارپوریٹ سیکٹر نے بالترتیب 166 ارب روپے اور 117 ارب روپے۔ جب معیشت کے کئی بڑے شعبے‘ غیر دستاویزی ہونے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے‘ اپنی آمدن کے مقابلے میں بہت ہی کم انکم ٹیکس دیتے ہیں تو اس کا بوجھ دستاویزی شعبوں پر پڑتا ہے۔ اس لیے سب سے پہلا کام یہ ہونا چاہیے کہ معیشت کو دستاویزی بنانے کیلئے کام کیا جائے۔ آئی ایم ایف نے بجٹ خسارے پر قابو پانے کیلئے سرکاری اخراجات میں کمی کی تجویز بھی دی ہے ۔اس میں غیر پیداواری اخراجات کا خاتمہ‘ سرکاری اداروں کی نجکاری اور ترقیاتی منصوبوں میں شفافیت حکومت کی اولین ترجیح ہونی چاہیے۔ اخراجات میں کمی ایک قابلِ عمل بلکہ ناگزیر اقدام ہے‘ مگر اس کیلئے سیاسی عزم اور عوامی شعور کی ضرورت ہے کیونکہ ہر قسم کی سبسڈی‘ غیر پیداواری اخراجات اور سرکاری شعبے میں کاروباری اداروں کے نام پر جو سفید ہاتھی پال رکھے ہیں ان سے سیاسی طبقے اور بااثر حلقوں کے مفادات وابستہ ہیں۔ پاکستان کی معیشت جس صورتحال میں ہے‘ اس میں وقتی سیاسی مفادات کو بالائے طاق رکھ کر قومی مفاد میں سخت مگر ضروری فیصلے کرنا ہوں گے۔ آئی ایم ایف سے مذاکرات کا مقصد صرف قسط حاصل کرنا نہیں بلکہ پائیدار معاشی ڈھانچہ تشکیل دینے کو ترجیحِ اول بنایا جائے جو مستقبل میں مالی خودمختاری اور عوامی خوشحالی کی ضمانت بن سکے۔ حکومت بارہا یہ کہہ چکی ہے کہ آئی ایم ایف کیساتھ یہ آخری قرض پروگرام ہو گا‘ مگر یہ اسی صورت ممکن ہے جب معیشت کو مضبوط بنیادوں پر استوار کیا جائے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں