بلاک چین کرنسی اور تحفظات
حکومتِ پاکستان کی جانب سے سرکاری سٹرٹیجک بٹ کوائن ریزرو کے قیام کا اعلان کیا گیا ہے۔ یہ اعلان وزیراعظم کے خصوصی معاون برائے بلاک چین اور کرپٹو اور پاکستان کرپٹو کونسل کے سی ای او بلال بن ثاقب نے امریکہ میں بٹ کوائن ویگاس 2025ء میں کیا۔ اس تقریب میں امریکہ کے نائب صدر جے ڈی وینس سمیت کئی اہم شخصیات نے شرکت کی۔ بلال بن ثاقب کا کہنا تھا کہ پاکستان میں چار کروڑ کرپٹو والٹ موجود ہیں اور یہ دنیا کی سب سے بڑی اور سب سے زیادہ فعال فری لانس معیشتوں میں سے ایک ہے۔ قومی بِٹ کوائن والٹ ایسے ڈیجیٹل اثاثے رکھے گا جو پہلے ہی ریاست کی تحویل میں ہیں۔ یہ اعلان ایسے موقع پر سامنے آیا ہے جب حکومت پہلے ہی بٹ کوائن مائننگ اور اے آئی ڈیٹا سنٹرز کیلئے دو ہزار میگاواٹ بجلی مختص کرنے کا اعلان کر چکی ہیں اور ڈیجیٹل اثاثہ جات اتھارٹی‘ پی ڈی اے اے کے قیام کا اعلان بھی کیا گیا ہے تاکہ بلاک چین پر مبنی مالیاتی ڈھانچے کو ریگولیٹ کیا جا سکے۔ فروری میں پاکستان بینکنگ سمٹ 2025ء سے خطاب کرتے ہوئے وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے سٹیٹ بینک سمیت متعلقہ حکام پر زور دیتے ہوئے کہا تھا کہ کرپٹو کرنسی کے حوالے سے اب کھلے ذہن سے غور کرنا چاہیے‘ اگر کرپٹو پہلے ہی سے غیر رسمی مارکیٹ میں رائج ہے تو ہمیں ریگولیٹری نظام کے حوالے سے سوچنے کی ضرورت ہے۔ یہ بدیہی حقیقت ہے کہ دنیا تیزی سے بدل رہی ہے اور سبھی ممالک اب ایک ایسے دوراہے پر کھڑے ہیں جہاں سے ایک راستہ جدید افکار و نظریات کی طرف نکلتا ہے اور دوسرا راستہ پرانی ڈگر پر گامزن رکھتا ہے۔ دنیا کے بیشتر ممالک اس وقت تذبذب کا شکار ہیں۔ پاکستان میں بھی دو نقطہ ہائے نظر پائے جاتے ہیں۔ ایک طبقہ مالیاتی جدیدت کو فوراً اپنانے اور پرانے نظام سے چھٹکارا پانا چاہتا ہے جبکہ دوسرا قدرے محتاط انداز میں آگے بڑھنے کا متمنی ہے۔ گزشتہ روز سیکرٹری خزانہ کی قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کے روبرو یہ وضاحت بہت اہم ہے کہ ملک میں کرپٹو کرنسی کی تاحال کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے‘ کرپٹو کونسل صرف ریگولیٹری فریم ورک کے طریقہ کار کے تعین کیلئے بنائی گئی ہے اور کرپٹو کے حوالے سے کوئی بھی ادارہ پارلیمنٹ کی منظوری سے قائم ہوگا۔ یہاں بجا طور پر یہ سوالات جنم لیتے ہیں کہ ایسی ڈیجیٹل کرنسی جو تاحال غیر قانونی ہے‘ اسکی مائننگ کیلئے بجلی مختص کرنے یا ڈیجیٹل والٹ کے قیام میں عجلت کیوں دکھائی جا رہی ہے؟ اس حوالے سے پہلی فوقیت ریگولیشن اور قانون سازی کو دی جانی چاہیے۔ ضروری ہے کہ اس ابہام کو فوری طور پر ختم کیا جائے اور ٹھوس فیصلہ کیا جائے۔ اس حوالے سے لیگل فریم ورک‘ حکومتی ضمانت‘ سائبر سکیورٹی‘ اینٹی منی لانڈرنگ اقدامات سمیت متعدد جہتوں میں کام کرنے کی ضرورت ہے۔ یقینا یہ امور حکومت کے بھی پیشِ نظر ہوں گے۔ اس وقت مگر مسئلہ یہ ہے کہ کرپٹو کرنسی کی جس طرح حکومت کی جانب سرپرستی ظاہر کی جا رہی‘ بہت سے لوگ اس میں سرمایہ کاری کے خواہشمند ہیں لیکن اگر کل کو یہ کرنسی قبول نہیں کی جاتی تو لوگوں کا پیسہ ڈوبنے کا اندیشہ ہے۔ اگر بٹ کوائن اثاثوں کے اعتبار سے تین سرفہرست ممالک کا جائزہ لیں تو ان میں امریکہ‘ چین اور برطانیہ شامل ہیں اور چین میں بھی تاحال کرپٹو کرنسی کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے۔ بہرحال اس سے ایک بات ضرور واضح ہو جاتی کہ بڑی طاقتیں اب ڈیجیٹل اور بلاک چین کرنسی کی دوڑ میں شامل ہو چکی ہیں اور جلد ہی ایک نیا مالیاتی نظام دنیا کے سامنے آ چکا ہو گا۔ لہٰذا خوب سوچ سمجھ کر اور دنیا میں مروج بلاک چین مالیاتی نظام کو دیکھ کر ایسی راہ اپنانے کی ضرورت ہے جو ملک کو جدیدیت کے ساتھ ہم قدم بھی رکھے اور اس کے مالیاتی اثاثوں کا تحفظ بھی یقینی بنائے۔ اس مالیاتی ارتقا کو نظر انداز کرنے سے جہاں ملک کو نقصان ہو سکتا ہے وہیں عجلت میں کیے گئے اقدامات کے مضمرات بھی کم نہیں ہیں۔