قومی یکجہتی کی بنیاد
بلوچستان کے قبائلی عمائدین کے گرینڈ جرگے نے صوبے کی سلامتی‘استحکام اور ترقی کے عزم کا اعادہ کرتے ہوئے حکومت اور مسلح افواج کے ساتھ کھڑے ہونے کا عزم کیا ہے۔کوئٹہ میں ہونے والے اس قومی جرگے میں وزیراعظم شہباز شریف اور آرمی چیف فیلڈ مارشل سید عاصم منیر نے خطاب کیا۔ قبائلی عمائدین کا گرینڈ جرگہ محض ایک رسمی اجتماع نہیں تھا بلکہ ایک ایسے موقع پر منعقد ہونے والا اہم قومی اجلاس تھا جب فتنہ الہندوستان کی تخریبی کارووائیاں شدت اختیار کرچکی ہے۔ دہشت گرد یہ کارروائیاں بلوچ قوم پرستی کے نام پر کرتے ہیں‘ مگر جیسا کہ وزیر اعلیٰ بلوچستان میر سرفراز بگٹی نے اس جرگے سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ دشمن کے آلہ کار صرف از صرف دہشت گرد ہیں اور بلوچوں کیلئے باعثِ شرم و ندامت ہیں۔ اس جرگے کی سب سے بڑی اہمیت یہ ہے کہ بلوچستان کے تمام بڑے قبائلی رہنماؤں نے اجتماعی طور پر نہ صرف حکومت اور مسلح افواج کے ساتھ کھڑے ہونے کا اعلان کیا بلکہ صوبے کی سلامتی‘ ترقی اور استحکام کیلئے ہر ممکن تعاون کا بھی یقین دلایا۔ ایسے وقت میں جب دشمن قوتیں بلوچستان کو بدامنی میں دھکیلنے کی پوری کوشش کر رہی ہیں‘اس عزم کا اعادہ خوش آئند ہے۔ دہشت گردی اور بیرونی مداخلت کے خلاف اس جرگے سے یہ واضح پیغام گیا ہے کہ بلوچستان کے عوام بیرونی ایجنڈے سے خبردار ہیں اور ان کی محرومیوں سے انہیں بلیک میل کرتے ہوئے دہشت گردی کی جانب نہیں ہانکا جا سکتا۔بہرحال یہ حقیقت مان کر چلنا ہو گا کہ بلوچستان احساسِ محرومی‘ پسماندگی‘ بدامنی اور معاشی عدم مساوات کا شکار ہے۔ اگرچہ مختلف حکومتوں نے ان مسائل سے نمٹنے کیلئے بلوچستان کیلئے خصوصی پروگرامز کا اعلان بھی کیا جیسا کہ 2009 ء میں ’آغاز حقوق بلوچستان‘اوراس کے بعد بھی ہر حکومت بلوچستان کیلئے خصوصی پیکیجز کا اعلان کرتی رہی ہے‘ مگر ان کے ثمرات عوام تک منتقل نہ ہو نے کی شکایت بدستور موجود ہیں۔ اسی خلا کو پُر کرنا اور اس حوالے سے بلوچوں کو اعتماد میں لینا اور انہیں فیصلہ سازی کا حصہ بناناہو گا۔ اس قسم کے جرگے اسی سمت اہم پیشرفت ثابت ہو سکتے ہیں اور یہ ریاست اور عوام کے درمیان پُل کا کام کر سکتے ہیں۔ وزیراعظم کا یہ کہنا بجا ہے کہ بلوچستان پاکستان کا دل ہے۔معدنی وسائل سے مالا مال پاکستان کا یہ صوبہ نہ صرف ملکی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی بن سکتا ہے بلکہ گوادر بندرگاہ جیسے میگا پروجیکٹس کی بدولت پورے خطے کیلئے تجارتی مرکز بننے کی بھرپور صلاحیت بھی رکھتا ہے۔ تاہم ترقی اور خوشحالی کے امکانات امن اور ہم آہنگی سے مشروط ہے۔ اس کیلئے ضروری ہے کہ مقامی آبادی کیلئے ترقی‘ تعلیم اور روزگار کے مواقع کا بندوبست کیا جائے۔اس جرگے میں قبائلی عمائدین کی جانب سے دہشت گردی‘ علیحدگی پسندی اور تخریب کاری کے خلاف کھلے الفاظ میں ریاست کی حمایت کا اعلان اس عزم کی نشاندہی کرتا ہے مٹھی بھر دہشت گردوں کا بیانیہ بلوچ سماج کی آواز نہیں۔ تاہم یہ بات واضح ہونی چاہیے کہ اس جرگے کے انعقاد ہی کو حتمی کامیابی نہ سمجھا جائے‘ بلکہ ریاستی اداروں‘ بالخصوص وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی ذمہ داری ہے کہ اس اعتماد کو عملی اقدامات کے ذریعے تقویت دی جائے۔ تعلیم‘ صحت‘ روزگار‘ پانی‘ بجلی‘ سڑکوں اور دیگر سہولتوں کی فراہمی یقینی بنانا ہوگی اورناراض بلوچوں کو قومی دھارے میں شامل کرنے کیلئے ان کی شکایات پر ہمدردانہ غور کرنااور نوجوانوں کیلئے روزگار اور فنی تربیت کے مواقع پیدا کرنا ہوں گے۔آخر میں اس بات کا اعتراف بھی ضروری معلوم ہوتا ہے کہ قبائلی عمائدین کی جانب سے ریاست کے ساتھ کھڑے ہونے کا فیصلہ پاکستان کے وفاقی ڈھانچے کی مضبوطی‘ قومی یکجہتی اور علاقائی ہم آہنگی کی جانب ایک بڑا قدم ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اس اعتماد کوعملی اقدامات کے ذریعے تقویت فراہم کی جائے۔