غفلت یا بدنظمی؟
کراچی کی ملیر جیل سے دو سو سے زائد قیدیوں کا فرار محض ایک اتفاق نہیں بلکہ جیل نظام میں پائی جانے والی خامیوں اور انتظامی غفلت کا مظہر ہے۔ اگرچہ زلزلے کی شدت زیادہ نہیں تھی مگر جیل حکام نے قیدیوں کو بیرکوں سے نکال کر جس طرح کھلی فضا میں منتقل کیا اور اس کے بعد قیدیوں کے ہنگامے اور اجتماعی فرار کی نوبت آئی‘ وہ اس امر کا ثبوت ہے کہ جیل میں ہنگامی حالات سے نمٹنے کیلئے کوئی مؤثر اور پیشگی منصوبہ بندی نہیں تھی۔ اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ زلزلے کے پیشِ نظر قیدیوں کو بیرکوں سے نکالنا ناگزیر تھا تو یہ سوال اپنی جگہ قائم رہے گا کہ ان کی نقل و حرکت پر قابو رکھنے کیلئے فوری اقدامات کیوں نہ کیے گئے؟ کیا جیل جیسے حساس ادارے میں کسی قدرتی آفت کی صورت میں فرار کی راہ اتنی آسانی سے ہموار ہو سکتی ہے؟ اگر ایسا ہے تو یہ نہ صرف جیل سسٹم بلکہ مجموعی قومی سلامتی کیلئے بھی خطرے کی گھنٹی ہے۔ اگرچہ صوبائی حکومت نے اس واقعہ پر ایک تحقیقاتی کمیٹی قائم کر دی ہے لیکن حکام صرف اس نکتے تک محدود نہ رہیں کہ واقعہ کیسے پیش آیا بلکہ اس کے بعد ذمہ داران کے خلاف سخت قانونی کارروائی بھی ہونی چاہیے۔ اس واقعے کو محض ایک وقتی بدنظمی نہ سمجھا جائے بلکہ ایک وارننگ کے طور پر دیکھا جائے۔ اگر اب بھی جیلوں کے سکیورٹی انتظامات سے چشم پوشی کی گئی تو کل کو یہ غفلت کسی بڑے سانحے کی صورت میں سامنے آ سکتی ہے۔