معاشی اہداف اور ترقیاتی منصوبہ بندی
حکومت کی جانب سے عید الاضحی کے فوری بعد وفاقی بجٹ پیش کرنے کا اعلان کیا گیا ہے اور اس سلسلے میں حکومتی سطح پر منصوبہ بندی حتمی مراحل میں ہے۔ گزشتہ روزوزیراعظم شہباز شریف کے زیر صدارت قومی اقتصادی کونسل کا اجلاس منعقد ہوا جس میں چاروں صوبوں کے وزرائے اعلیٰ‘ وزارتِ خزانہ اور دیگر متعلقہ وزارتوں کے اعلیٰ حکام نے شرکت کی۔ قومی اقتصادی کونسل میں مالی سال 2025-26ء کے معاشی اہداف اور ترقیاتی پلان کی منظوری دی گئی ہے جس کے تحت آئندہ مالی سال کے لیے معاشی شرح نمو 4.2 فیصد‘ برآمدات کا ہدف 35 ارب ڈالر‘ ترسیلاتِ زر کا ہدف 39 ارب ڈالر اور درآمدات کا ہدف 65 ارب ڈالر مقرر کرنے کا فیصلہ کیا گیا جبکہ وفاقی ترقیاتی بجٹ کیلئے ایک ہزار ارب روپے مختص کرنے کی منظوری بھی دی گئی۔ قومی اقتصادی کونسل کی جانب سے جو بجٹ اہداف منظور کیے گئے ہیں‘ ان کا موجودہ معاشی تناظر میں جائزہ لینا ضروری ہے تاکہ ایک بہتر معاشی خاکہ اُبھر سکے۔ رواں مالی سال کی پہلی تین سہ ماہیوں میں شرح نمو 2.68 فیصد رہی جبکہ گزشتہ سال بجٹ میں 3.6 فیصد نمو کا ہدف رکھا گیا تھا۔ گزشتہ مالی سال بھی شرح نمو 3.5 فیصد مقررہ ہدف کے مقابلے میں 2.5 فیصد رہی تھی۔2020ء سے 2025ء کے پانچ سالہ عرصے میں جی ڈی پی کی اوسط شرح نمو محض تین فیصد رہی ہے اور معاشی تجزیہ کاروں کے مطابق یہ پاکستان کی تاریخ کی کم ترین شرح نمو والا پنج سالہ دور ہے۔ اگر بڑے معاشی شعبوں کی بات کی جائے تو زراعت کا شعبہ سرفہرست ہے۔ گزشتہ مالی سال زراعت نے توقع سے بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کیا تھا مگر رواں سال تمام بڑی فصلوں کی پیداوار میں کمی آئی ہے۔ خاص طور پر گندم اور کپاس۔ گندم کی پیداوار میں11فیصد اور کپاس میں 30فیصد کے لگ بھگ کمی آئی ہے۔ اگر بڑی صنعتوں کی کارکردگی کا جائزہ لیں تو پہلی تین سہ ماہیوں میں مینوفیکچرنگ 1.9 فیصد کم ہوئی۔ چینی‘ سیمنٹ اور سٹیل جیسی بڑی صنعتوں میں بالترتیب 12.6 فیصد‘ 6.4 فیصد اور 11.7 فیصد کمی آئی۔ البتہ بعض مثبت اشاریے بھی دیکھنے کو ملے جیسے شرح سود کا بتدریج کم ہو کر 22 فیصد سے 11 فیصد پر آ جانا۔ اسی طرح مہنگائی کی شرح میں بھی کمی آئی ہے۔ جولائی 2024ء میں مہنگائی کی شرح 11.1 فیصد تھی جو اپریل میں 0.8 فیصد اور مئی میں 3.2 فیصد ریکارڈ کی گئی۔ سب سے بڑا مثبت اشاریہ رواں مالی سال کے پہلے دس مہینوں میں ترسیلاتِ زر میں سالانہ بنیادوں پر 30 فیصد سے زائد کا اضافہ ہے۔ یہ اضافہ حکومت کیلئے ایک غیر مترقبہ نعمت ثابت ہوا‘ جس سے مالی دبائو کو کم کرنے میں سہولت ملی مگر دوسری طرف ٹیکس شارٹ فال کا تاحال کوئی حل نہیں نکالا جا سکا۔ اگرچہ رواں سال گزشتہ سال کے مقابل 36 فیصد زائد ٹیکس وصول کیا گیا مگر اس کے باوجود رواں مالی سال کے گیارہ مہینوں میں مجموعی ٹیکس محصولات میں 1027ارب روپے کے شارت فال کا سامنا ہے۔ 11 ہزار 240 ارب روپے کے ہدف کے مقابلے میں 10 ہزار 213 ارب روپے وصول ہوئے ہیں۔ وزارتِ خزانہ کی جانب سے آئندہ مہینوں میں مہنگائی بڑھنے کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے جبکہ ترسیلاتِ زر میں اضافے کو بھی معاشی استحکام کی بنیاد نہیں بنایا جا سکتاہے۔ان حالات میں ضرورت اس امر کی ہے کہ معاشی اہداف کا عمیق جائزہ لیا جائے اور ان کا گزشتہ اہداف سے موازنہ کر کے سراغ لگایا جائے کہ کون سی ایسی کمی یا کوتاہی رہ گئی جس سے اکثر اہداف حاصل نہیں ہو سکے۔ گزشتہ بجٹ اہداف میں ناکامی کے اسباب کا درست تجزیہ کر کے ہی آئندہ مالی سال کے لیے زیادہ بہتر اور حقیقت پسند اہداف مقرر کیے جا سکتے ہیں اور اسی صورت میں ان اہداف کا حصول یقینی بنایا جا سکتا ہے۔