دہشت گردی کے خلاف مشترکہ فورم!
پاکستان سفارتی مشن کے سربراہ بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ بلوچستان میں دہشت گرد حملوں میں بھارت کے ملوث ہونے کی طویل فہرست ہے‘ دونوں ممالک کے درمیان ایسے مشترکہ فورم کی اشد ضرورت ہے جو دہشت گرد واقعات کی شفاف اور غیر جانبدار تحقیقات کرے۔ امریکہ میں ایک چینی ٹیلی ویژن کو انٹرویو دیتے ہوئے سابق وزیر خارجہ نے پاک بھارت سفارتکاری اور بامعنی مذاکرات پر بھی زور دیا۔ قبل ازیں واشنگٹن ڈی سی میں امریکی کانگریس کے پاکستانی کاکس سے ملاقات کے دوران پاکستانی وفد نے واضح کیا کہ جنوبی ایشیا میں دیرپا امن کے لیے بامقصد ڈائیلاگ ہی واحد راستہ ہے اور عالمی برادری کو اس ضمن میں غیر جانبدار کردار ادا کرنا ہو گا۔ یہ ایک ناقابلِ تردید حقیقت ہے کہ کشیدگی میں نہ تو پاکستان کا فائدہ ہے اور نہ بھارت ہی اس سے کوئی مفاد حاصل کر سکتا ہے۔ مگر محسوس ہوتا ہے کہ عقل سے عاری بھارتی قیادت پاکستان کی امن کی کوششوں کو کمزوری پر محمول کر رہی ہے۔ پاکستانی قیادت بارہا مودی سرکار کو پُرامن مذاکرات کے ذریعے باہمی مسائل کو حل کرنے اور دہشت گردی کے مسئلے سے مشترکہ طور پر نمٹنے کے دعوت دے چکی ہے مگر جواب میں بھارتی قیادت آبی جارحیت سے مزید اشتعال انگیزی پر اتر آئی ہے۔ بھارت کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ دنیا کیوں اس کے بیانیے پر توجہ نہیں دے رہی اور کیوں سفارتی سطح پر اسے مسلسل ہزیمت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ ایک طرف بھارت دہشت گردی سے متاثرہ ملک ہونے کا دعویٰ کرے اور دوسری جانب افغانستان کے راستے پاکستان میں دہشت گرد گروہوں کی مالی و عسکری سرپرستی بھی کرے۔ یہ امر گزشتہ دو دہائیوں سے دنیا کے سامنے ہے کہ پاکستان بھارت کی سپانسرڈ دہشت گردی کا شکار ہے اور لاتعداد مالی وجانی نقصان اٹھا چکا ہے۔ 19مئی کو ترک میڈیا کو انٹرویو دیتے ہوئے ڈی جی آئی ایس پی آر نے صراحت کے ساتھ بتایا تھا کہ اس وقت پاکستان دنیا میں سب سے زیادہ دہشت گردی کا شکار ملک ہے۔ جنوری 2024ء سے اب تک پاکستان میں 3700 سے زیادہ دہشت گردی کے واقعات ہو چکے اور 17ماہ سے بھی کم عرصے میں 3896 افراد جاں بحق ہوئے۔بھارت کا پاکستان میں شدت پسندی کے نام نہاد کیمپوں کا بیانیہ اسی وقت تحلیل ہو گیا تھا جب بھارتی حملوں کے چند گھنٹوں بعد ہی پاکستانی حکام کی جانب سے دن کی روشنی میں عالمی میڈیا کو حملوں کی جگہ کا دورہ کرایا گیا اور پوری دنیا نے اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا کہ بھارت کی جانب سے نشانہ بنائی گئی مساجد کے ملبے میں قرآن و مصلے کے سوا کچھ نہ تھا۔ اس پر بجا طور پر یہ سوال اٹھا کہ وہ ٹریننگ کیمپس کہاں ہیں جن کو جواز بنا کر پاکستان پر حملہ کیا گیا اور خواتین اور بچوں کو شہید کیا گیا۔ اب بھی بھارتی قیادت جھوٹے گمان کی شکار‘ وہی پرانا بیانیہ رَٹ رہی ہے۔ اگر پھر سے کوئی حماقت کی گئی تو نتیجہ بھی وہی نکلے گا؛ البتہ زیادہ سخت اور شدید۔ لہٰذا ضروری ہے کہ الزام تراشی کے بجائے مفاہمت اور مصالحت کا رویہ اپنایا جائے۔اگر بھارتی قیادت دہشت گردی کے حوالے سے واقعی سنجیدہ ہے تو سب سے پہلے ریاستی دہشت گردی کی پالیسی بالخصوص فتنہ الہندوستان کی سپانسرشپ ختم کرے۔ پاکستانی وفد کی جانب سے انسدادِ دہشت گردی کے مشترکہ فورم کی ضرورت کا اظہار بھارت کیلئے ایک نئے موقع کے مترادف ہے کہ وہ اپنی ہٹ دھرمی ترک کر کے امن کا راستہ اپنائے اور اپنے ملک کے اندر‘ جنوبی ایشیا کے خطے اور دنیا بھر میں امن کے فروغ کیلئے مشترکہ اقدامات کرے۔