اداریہ
WhatsApp: 0344 4450229

بجٹ 2025-26،اہداف اور امکانات

وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے 17ہزار 573ارب روپے کا وفاقی بجٹ برائے مالی سال 2025-26ء پیش کر دیا ہے‘ جس میں سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں دس فیصد اضافہ اور تنخواہ دار طبقے کے لیے تمام ٹیکس سلیب میں کمی کی گئی ہے۔ وفاقی بجٹ میں اقتصادی ترقی کی شرح نمو کا ہدف 4.2 فیصد مقرر کیا گیا جبکہ ایف بی آر محصولات کا تخمینہ 14ہزار 131 ارب روپے لگایا گیا ہے۔ بجٹ کے اہم نکات کی بات کی جائے تو رواں مالی سال کے بجٹ کا حجم گزشتہ سال کی نسبت لگ بھگ سات فیصد کم ہے‘ جس میں قرضوں اور سود کی ادائیگیوں کیلئے 8207 ارب روپے‘ دفاعی بجٹ کے لیے 2550 ارب روپے اور وفاقی ترقیاتی بجٹ کے لیے 1000 ارب روپے مختص کرنے کی تجویز ہے جبکہ سولر پینلز کی درآمد پر اٹھارہ فیصد سیلز ٹیکس اور پٹرولیم مصنوعات پر 2.5 روپے فی لیٹر کی شرح سے کاربن لیوی عائد کرنے کی تجویز دی گئی۔ نامکمل معاشی اہداف‘ بیرونی ادائیگیوں کے بوجھ تلے دبی معیشت اور زرِمبادلہ کے ذخائر کو سہارا دینے کی مسلسل تگ و دو میں مالی سال 2025-26ء کا جو بجٹ پیش کیا ہے‘ اس پر مختلف طبقات کی جانب سے مختلف آرا کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ اگرچہ تنخواہوں اور پنشن میں اضافہ اور تنخواہ دار طبقے پر ٹیکس کی شرح کم کرنے سے نچلے طبقے کو کچھ ریلیف ملنے کا امکان ہے مگر خلافِ معمول رواں برس بجٹ میں کم از کم تنخواہ کا اعلان نہیں کیا گیا۔ اگر بجٹ کے مثبت نکات کا جائزہ لیا جائے تو آبی تحفظ کے منصوبوں پر خصوصی توجہ دی گئی ہے۔ ایسے وقت میں جب پاکستان کو ماحولیاتی تبدیلیوں کے تباہ کن اثرات کا سامنا ہے اور بارشوں کا دورانیہ سکڑنے اور بھارت کی آبی جارحیت کے سبب آبی قلت کے مسائل شدید تر ہو رہے ہیں‘ بجٹ میں نیشنل واٹر پالیسی 2018ء کے تحت مختلف اہداف مقرر کیے ہیں جن میں واٹر سٹوریج میں 10 ملین ایکٹر فٹ کا اضافہ‘ پانی کے ضیاع میں 33 فیصد کمی‘ پانی کے معقول استعمال میں 30 فیصد اضافہ شامل ہیں۔ اسی طرح انرجی ریفارمز اور ایف بی آر ریفارمز کو بھی بجٹ کا حصہ بنایا گیا ہے۔ کنسٹرکشن سیکٹر کو مہمیز دینے کے لیے جائیداد کی خریداری پر وِد ہولڈنگ ٹیکس کی شرح میں کمی اور کمرشل جائیدادوں‘ پلاٹس اور گھروں کی منتقلی پر گزشتہ سال عائد کی جانے والی سات فیصد تک کی فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی ختم کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔

 نئے مالی سال کے میزانیے کے بعض نکات ایسے ہیں جنہیں ماہرین معیشت کی جانب سے غیر حقیقی قرار دیا جا رہا ہے۔ ان میں سے ایک ایف بی آر کے محصولات کا تخمینہ رواں مالی سال سے 18.7 فیصد بڑھا کر ہدف 14 ہزار 131 ارب روپے مقرر کرنا ہے۔ گزشتہ سال بجٹ میں 12ہزار 970 ارب روپے کا ہدف مقرر کیا گیا تھا مگر 11ہزار 900ارب روپے ہی ٹیکس اکٹھا ہو سکا۔ ٹیکس اہداف پورا کرنے کے لیے وفاقی ترقیاتی بجٹ میں کٹوتی کی گئی۔ اس بار ترقیاتی بجٹ گزشتہ سال کے مقابلے میں 400 ارب روپے کم مختص کیا جا رہا‘ ایسے میں یہ سوال بجا ہے کہ محض ایف بی آر ریفارمز سے نئے ٹیکس اہداف حاصل ہو سکتے ہیں؟یہ امر تعجب خیز ہے کہ حکومت صنعتی پیداوار اور کاروباری فروغ کو مراعات دیے بغیر محصولات کے مجموعی ہدف میں اضافے کی توقع لگائے ہوئے ہے۔ ٹیکس میں اضافے کے لیے ٹیکس چوری کے شعبوں کی نشاندہی کرنے اور انہیں گرفت میں لانے کی ضرورت ہے‘ جس پر اب بھی توجہ نہیں دی جا رہی۔ ادارہ جاتی اصلاحات اور نجکاری کے حوالے سے وزیر خزانہ کا یہ بیان حیران کن ہے کہ یہ کام کہنے میں آسان اور کرنے میں مشکل ہے۔ یہ وہ بھاری پتھر ہے جسے اٹھائے بغیر معاشی خسارے کے دہانے کو بند نہیں کیا جا سکتا۔دوسری جانب خلافِ توقع زرعی شعبے کے حوالے سے بھی کسی پیکیج کا اعلان نہیں کیا گیا۔ توقع تھی کہ زرعی پیداوار میں 14 فیصد کمی کے بعد حکومت اب کچھ ازالہ کرنے کی کوشش کرے گی مگر محسوس ہوتا ہے کہ حکومت نے اس شعبے کی سرپرستی سے ہاتھ اٹھا لیا ہے۔

 حالیہ اقتصادی جائزہ کے مطابق ملک کی فی کس آمدنی میں 9.7 فیصد بہتری آئی ہے اور یہ بڑھ کر 1824 ڈالر فی کس سالانہ ہو گئی ہے۔ اس کے مقابلے میں بھارت میں فی کس آمدن 2485 ڈالر اور بنگلہ دیش میں 2820 ڈالر ہے۔ یعنی پاکستان علاقائی ممالک سے بھی کافی پیچھے ہے۔ لہٰذا ٹیکس بڑھانے کے ساتھ ساتھ نچلے طبقے پر بھی توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت ہے۔ اگرچہ آئندہ مالی سال میں انکم سپورٹ پروگرام کے لیے716 ارب روپے مختص کرنے کی تجویز دی گئی ‘جو گزشتہ سال کے مقابلے میں 21 فیصد زیادہ ہے تاہم اس حوالے سے بجٹ بڑھانے سے زیادہ اہم کام عملی طور پر اس رقم کو مستحق افراد تک پہنچانا ہے۔ گزشتہ ماہ کروڑوں کی رقوم غلط طور پر تقسیم ہونے کا انکشاف ہو چکا جبکہ غیر مستحق افراد بھی اس سہولت سے فائدہ اٹھاتے رہے۔ بہرکیف‘ وفاقی وزیر خزانہ کی جانب سے جو بجٹ پیش کیا گیا اس پر 13 جون سے بحث کا آغاز ہو گا‘ اور بجٹ سیشن کو 27 جون تک جاری رکھنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ اس دوران اپوزیشن اور اتحادی جماعتوں کی جانب سے بھی ترامیم و تجاویز پیش کی جائیں گی۔ حکومت کو ان تجاویز کے ساتھ ساتھ متعلقہ شعبوں کے سٹیک ہولڈرز کو بھی اعتماد میں لینا چاہیے تاکہ آئندہ مالی سال کے لیے ایک قابلِ عمل میزانیہ بنایا جا سکے۔

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں