اداریہ
WhatsApp: 0344 4450229

زراعت نظر انداز کیوں؟

زراعت کو ملکی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت حاصل ہے۔ دیہی معیشت‘ خوراک کی فراہمی‘ صنعتی خام مال اور ملک کی 37فیصد لیبر فورس کا روزگار اسی شعبے سے وابستہ ہے۔ لیکن یہ امر افسوسناک ہے کہ جس شعبے پر ملکی استحکام اور عوام کی بقا کا انحصار ہے اسے بدترین غفلت اور پالیسی عدم تسلسل کا سامنا ہے۔ رواں مالی سال کے دوران زرعی شعبے کی شرحِ نمو کا 0.56 فیصد تک محدود رہنا اور بڑی فصلوں کی پیداوار میں 13فیصد سے زائد کمی اس شعبے کی زبوں حالی کا بین ثبوت ہے۔ اس مایوس کن صورتحال کے باوجود آئندہ مالی سال کے بجٹ میں زرعی شعبے کو نظر انداز کرتے ہوئے اس شعبے کیلئے صرف چار ارب روپے کی رقم مختص کی گئی ہے جو ملک کے زرعی حجم اور مسائل کے اعتبار سے نہایت قلیل ہے۔ علاوہ ازیں حکومت نے نہ تو زرعی مداخل کی قیمتوں میں کمی کے حوالے سے کوئی لائحہ عمل وضع کیا ہے اور نہ اس شعبے کو جدید بنیادوں پر استوار کرنے کی کوئی منصوبہ بندی کی ہے۔ کاشتکار کو جب سستی کھاد‘ ایندھن‘ مالی تحفظ اور جدید مشینری میسر نہ ہو تو وہ کیسے پیداواری اہداف حاصل کر سکتا ہے؟ اگر زراعت سے عدم توجہی کی یہ روش برقرار رہی تو نہ صرف ملکی فوڈ سکیورٹی خطرے میں پڑ جائے گی بلکہ زرعی درآمدات پر انحصار بڑھنے سے تجارتی خسارہ بھی بڑھے گا۔ اب بھی وقت ہے کہ حکومت زراعت کو اپنی پالیسی ترجیحات میں سرفہرست رکھتے ہوئے ایسے فیصلے کرے جو کاشتکار کے ہاتھ مضبوط کریں اور معیشت کو پائیدار بنیاد فراہم کریں۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں