اداریہ
WhatsApp: 0344 4450229

ثالثی کا عندیہ

امریکی محکمہ خارجہ کی ترجمان ٹیمی بروس نے مسئلہ کشمیر پر امریکی ثالثی کی پیشکش کا اعادہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ صدر ٹرمپ خوش دلی سے ایسے معاملات میں ثالثی کرنا چاہیں گے۔ سٹیٹ ڈپارٹمنٹ میں بریفنگ کے دوران امریکی محکمہ خارجہ کی ترجمان کا کہنا تھا کہ صدر ٹرمپ اپنا ہر قدم نسلوں پر محیط تنازعات کو حل کرنے کیلئے اٹھاتے ہیں‘ اگر ہم کشمیر کے تنازع پر کسی نتیجے تک پہنچیں تو یہ ایک خوش آئند پیش رفت ہو گی۔ پاکستانی سفارتی وفد کے سربراہ بلاول بھٹو زرداری نے بھی لندن میں میڈیا سے بات کرتے ہوئے امریکہ سمیت عالمی برادری کو جنوبی ایشیا کے امن میں کردار ادا کرنے کا کہا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر امریکہ کو بھارت کو کان سے پکڑ کر بھی بات چیت تک لانا پڑے تو یہ دنیا کے مفاد میں ہوگا۔ امریکی انتظامیہ کی جانب سے کشمیر پر ثالثی کی پیشکش ایسے وقت پر کی گئی ہے جب ایک روز قبل بھارتی وزیر خارجہ نے برسلز میں پاکستان کے خلاف دوبارہ اشتعال انگیز زبان استعمال کی اور ایک بار پھر پاکستان پر حملے کا عندیہ دیا۔ عالمی مبصرین کے مطابق صدر ٹرمپ اپنے دوسرے دورِ صدارت میں اپنی شناخت امن کے سفیر کے طور پر قائم کرنا چاہتے ہیں اور پاک بھارت جنگ رکوانا‘ شام پر عائد پابندیوں کا خاتمہ‘ ایران کے ساتھ جوہری مذاکرات کا آغاز اور روس‘ یوکرین جنگ رکوانے کیلئے کی جانے والی کوششوں سے ان کی سنجیدگی کا اظہار ہوتا ہے۔ قبل ازیں عرب ممالک کے دورے کے موقع پر بھی صدر ٹرمپ نے پاک بھارت جنگ کے ہولناک پہلوئوں کو اجاگر کرتے ہوئے دونوں ممالک میں مثبت باہمی تعلقات کی خواہش کا اظہار کیا تھا۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ شاید ہم انہیں (پاک بھارت قیادت کو) ایک خوشگوار ڈنر پر اکٹھا کر لیں۔ تاہم امریکی انتظامیہ کی جانب سے کشمیر پر ثالثی کی پیشکش کے باوجود بھارت کی قیادت ہٹ دھرمی پر قائم ہے اور امن کاوشوں کو زائل کر رہی ہے۔مسئلہ یہ ہے کہ بھارت کشمیر سمیت تصفیہ طلب مسائل پر بات چیت کرنے کے بجائے کشیدگی کو مسلسل بڑھاوا دے رہا ہے۔ اس وقت پاکستان دہشتگردی سمیت متعدد داخلی مسائل سے نبرد آزما ہے اور ان مسائل کا حل اسی وقت ممکن ہو سکتا ہے جب خطے میں پائیدار امن ہو۔ گزشتہ روز امریکی سینٹرل کمانڈ کے سربراہ جنرل مائیکل ایرک کوریلا نے بھی یہ اعتراف کیا کہ پاکستان دہشتگردی سے متاثرہ ملک ہے اور 2024ء کے آغاز سے اب تک پاکستان کے مغربی علاقوں میں ایک ہزار سے زائد دہشت گرد حملے ہو چکے جن میں 700 سکیورٹی اہلکار اور شہری شہید اور 2500 زخمی ہوئے۔ جنرل کوریلا نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کے کردار کو سراہتے ہوئے انسدادِ دہشت گردی میں پاکستان کی شراکت داری کو غیر معمولی قرار دیا اور اعتراف کیا کہ پاکستان کیساتھ قریبی انٹیلی جنس تعاون کے نتیجے ہی میں داعش خراسان کے درجنوں دہشت گردوں کو ہلاک اورگرفتار کیا گیا اور پاکستان کی انٹیلی جنس شیئرنگ کے ذریعے امریکہ کو کئی اہم کامیابیاں ملیں‘ جن میں ’ایبے گیٹ‘ بم دھماکے کے ماسٹر مائنڈ کی گرفتاری اور امریکہ حوالگی بھی شامل ہے۔ لہٰذا ایسے وقت میں جب پاکستان مغربی سرحدی علاقوں میں قیامِ امن کی کاوشوں میں مصروف ہے‘ بھارت کی جانب سے مشرقی محاذ پر تنائو بڑھانا عالمی دہشت گرد گروہوں کو دوبارہ اکٹھا ہونے اور اپنی قوت مجتمع کرنے کا موقع فراہم کرے گا لہٰذا ضروری ہے کہ استحکامِ امن کیلئے عالمی برداری اپنا کردار ادا کرے اور بھارت کو مذاکرات کے ذریعے مسائل کے حل پر مجبور کرے۔ امریکی محکمہ خارجہ کی پاک بھارت تصفیہ طلب مسائل میں ثالثی کی پیشکش امن پسندی کو ایک اور موقع دینے کے مترادف ہے‘ تاہم عالمی اور علاقائی امن اور تعمیری کوششوں کو نتیجہ خیز اور پائیدار بنانے کیلئے بھارتی قیادت کے رویے میں تبدیلی آنا بھی ضروری ہے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں