کفایت شعاری صرف عوام کیلئے؟
وزیراعظم شہباز شریف نے چیئرمین وڈپٹی چیئرمین سینیٹ اور سپیکر و ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی کی تنخواہوں میں حالیہ اضافے کا نوٹس لیتے ہوئے چیئرمین سینیٹ اور سپیکر قومی اسمبلی سے رپورٹ طلب کی ہے‘ تاہم وزارتِ پارلیمانی امور نے تنخواہوں میں اضافے کانوٹیفکیشن جاری کر دیا ہے جس کے مطابق سپیکر قومی اسمبلی و چیئرمین سینیٹ کی تنخواہوں میں لگ بھگ 534فیصد اضافہ کیا گیا اور اس کا اطلاق یکم جنوری 2025ء سے نافذ العمل ہوگا۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق گزشتہ کئی ماہ سے یہ معاملہ ہائوس کی فنانس کمیٹیوں میں زیر بحث تھا اور سینیٹ اور قومی اسمبلی کی ہاؤس فنانس کمیٹیوں کے الگ الگ اجلاسوں میں اس کی منظوری دی گئی۔ اس تمام عمل کو وفاقی کابینہ اور حکومت کی خاموش تائید حاصل تھی اور اراکینِ کمیٹی نے اس اضافے کی منظوری دی۔ یہ واضح ہے کہ وزیراعظم کی جانب سے نوٹس لینے کا بھی کچھ فائدہ نہیں ہو گا کیونکہ حکومت کا قومی اسمبلی و سینیٹ کے معاملات سے براہِ راست تعلق نہیں ہوتا‘ حکومت پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں کو بجٹ ضرور فراہم کرتی ہے تاہم اس بجٹ کے استعمال میں دونوں ایوان خود مختار ہیں۔ اگر حکومت کفایت شعاری میں واقعی سنجیدہ ہے تو اسے حکومتی ایوانوں اور قومی اسمبلی و سینیٹ کے بجٹ میں کمی کرنا چاہیے تھی نہ کہ اضافہ۔ چند روز قبل پیش کیے گئے وفاقی بجٹ میں قومی اسمبلی کے بجٹ کو 28 فیصد بڑھا کر 16 ارب 29 کروڑ روپے مختص کرنے کی تجویز پیش کی گئی جو گزشتہ سال 12 ارب 73 کروڑ روپے تھا۔ اسی طرح سینیٹ کے بجٹ میں 25 فیصد اضافہ تجویز کیا گیا اور نو ارب ساڑھے پانچ کروڑ روپے مختص کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔6501 ارب روپے خسارے کے بجٹ کے سائے میں بھی فیصلہ ساز ایوانوں کے بجٹ میں کمی کی ضرورت نہیں محسوس کی گئی اور ایک بار پھر سارا بوجھ غریب عوام پر منتقل کر دیا گیا۔ اس سے قبل گزشتہ برس دسمبر میں پنجاب اور رواں سال جنوری میں وفاق میں ممبرانِ اسمبلی و سینیٹ کی تنخواہوں میں کئی سو فیصد تک اضافہ کیا گیا تھا۔ اس حوالے سے اگر دینی تعلیمات دیکھی جائیں تو یہ واضح ہے کہ رسالت مآبﷺ نے فاقہ کشی کی شدت میں عام مسلمانوں کے ساتھ اپنے شکم مبارک پر بھی پتھر باندھ رکھے تھے جبکہ خلیفۃ الرسول سیدنا ابوبکر صدیقؓ نے سربراہِ مملکت کی حیثیت سے بیت المال سے محض اتنا گزارہ الائونس لینا گوارا کیا جو ایک عام مزدور کی اجرت تھی۔ معاصر دنیا کو دیکھیں تو امریکہ‘ جو دنیا کی سب سے بڑی معیشت ہے‘ میں کانگرس کو اپنی مراعات اور تنخواہوں میں اضافے کا اختیار تو حاصل ہے مگر 27ویں ترمیم میں یہ طے کر دیا گیا کہ ممبران اس اختیار سے ذاتی فائدہ نہیں اٹھا سکتے بلکہ تنخواہوں وغیرہ میں اضافے کا اطلاق اگلی ٹرم سے ہو گا۔ 236سال کی تاریخ میں امریکی صدر کی تنخواہ میں محض پانچ بار اضافہ کیا گیا اور موجودہ امریکی صدر 24سال پرانی تنخواہ پر کام کر رہے۔ ہمارے معاشی حالات تو اس امر کے متقاضی ہیں کہ اشرافیہ کو میسر مفت بجلی‘ گیس اور پٹرول جیسی سہولتوں وغیرہ میں کمی کی جائے کیونکہ حکومت اب ان مراعات کا بوجھ اٹھانے سے قاصر ہو چکی ہے‘ ایسے میں تنخواہوں میں پانچ سو فیصد سے بھی زائد اضافہ سراسر ناقابلِ توضیح ہے۔ ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ افراطِ زر کو مدنظر رکھتے ہوئے کیا جاتا ہے مگر امرائے حکومت پر شاید کوئی اصول لاگو نہیں ہوتا۔ ایسے وقت میں جب ملک میں شرح غربت‘ ورلڈ بینک کے مطابق‘ 44.7 فیصد پر پہنچ چکی ہے اور 10کروڑ 79 لاکھ پاکستانی دو وقت کی روٹی سے بھی عاجز آ چکے ہیں‘حکومتی امرا کی تنخواہیں بڑھانے کا فیصلہ معاشی مشکلات اور عوام میں بددلی بڑھانے کا سبب بنے گا۔ دریں حالات جب سوائے نئے قرضوں کے‘ اخراجات پورا کرنے کا کوئی چارہِ کار نہیں‘ حکومتی اخراجات میں کمی ہونی چاہیے اور اس کا اطلاق حکومتی ایوانوں کے بجٹ میں کٹوتی سے ہونا چاہیے۔