اداریہ
WhatsApp: 0344 4450229

مشرق وسطیٰ کا امن خطرے میں

ایران پر اسرائیلی حملے کے بعد مشرقِ وسطیٰ میں امن کیلئے سنجیدہ خطرات پیدا ہو چکے ہیں۔ یہ حملہ ایسے وقت میں کیا گیا جب جوہری معاملات پر ایران اور امریکہ میں مذاکرات جاری تھے۔ مذاکرات کا سلسلہ اگرچہ اپریل سے جاری ہے اور ابھی تک کسی نتیجے پر نہیں پہنچ سکا تاہم مذاکراتی عمل کا جاری رہنا اس امر کی دلیل ہے کہ فریقین کسی نتیجے تک پہنچنے کے امکان سے مایوس نہیں ہیں۔ مگر اس جارحانہ اقدام کے بعد مذاکراتی پیش رفت یا سفارتی عمل سے تنازعات کو حل کرنے کی کوشش کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچا ہے۔ اس کی تمام تر ذمہ داری اسرائیل پر عائد ہوتی ہے جس کے اقدامات مشرقِ وسطیٰ میں جنگ کے خطرات میں اضافہ کر رہے ہیں۔ اس بڑے پیمانے کے حملے میں بلاشبہ ایران کو خاصا نقصان اٹھانا پڑا ہے۔ اسکے کئی کمانڈر‘ سائنسدان اور عام شہری ان حملوں میں شہید ہوئے ہیں اور متعدد فوجی ٹھکانوں اور جوہری مراکز کو درمیانے یا بڑے پیمانے پرنقصان پہنچا ہے۔ ایران کی جانب سے اس صورتحال کا جواب کیسے دیا جاتا ہے یا یہ کہ ایران کے پاس کیا آپشنز ہیں‘ یہ ابھی غیر واضح ہے۔ بہر کیف یہ ردِعمل جس سطح کا بھی ہو مشرقِ وسطیٰ کے خطے کے امن کیلئے اس کے اثرات دیرپا ہوں گے۔ خطے کے ممالک کے خلاف اسرائیل کے بڑھتے ہوئے جارحانہ اقدامات کو دیکھا جائے تو مشرقِ وسطیٰ پہلے ہی آتش فشاں کے دھانے پر کھڑا ہے۔ حالیہ کچھ عرصے کے واقعات ہی کو نوٹ کرنا کافی ہو گا کہ اس دوران لبنان اور شام میں اسرائیلی حملے معمول کے واقعات بن چکے ہیں۔ اب یہی سلسلہ ایران تک پھیل گیا ہے۔ یہ صورتحال مشرقِ وسطیٰ کے مسلم ممالک کی سلامتی کیلئے غیر معمولی خطرہ نظر آتی ہے اور ’گریٹر اسرائیل‘ کے مفروضے کے تناظر میں سوچنے پر مجبور کرتی ہے۔ مشرقِ وسطیٰ میں اسرائیل کا ایک جارح طاقت کے طور پر پھیلاؤ خطے کی مسلم ریاستوں کیلئے لمحۂ فکریہ ہونا چاہیے۔ یہ عالمی طاقتوں کیلئے بھی اتنا ہی بڑا سوال ہے۔ دوسری عالمی جنگ کے اختتام پر اقوام متحدہ کا قیام اس امید کے ساتھ ہوا تھا کہ یہ دنیا میں طاقت کے بجائے اصول وضوابط کی حکمرانی یقینی بنانے میں مدد کرے گی تاکہ دنیا کو تصادم کے خطرات سے بچایا جا سکے‘ عالمی مسائل کو حل کرنے میں بین الاقوامی تعاون حاصل کیا جا سکے اور بنی نوع انسان کو محفوظ مستقبل دیا جا سکے مگر غزہ سمیت فلسطین میں اسرائیلی جنگی جرائم اور سرحد پار اسرائیلی کارروائیاں اقوام متحدہ کے وجود کا تمسخر ہیں۔ اسرائیلی وزیراعظم اور وزیر دفاع کے جنگی جرائم پر ان کے خلاف فیصلہ دینے پر عالمی طاقت نے عالمی فوجداری عدالت کو نشانے پر لیا ہوا ہے۔ ابھی حال ہی میں امریکہ نے اس عدالت کے اُن چار ججز پر پابندیاں عائد کرنے کی منظوری دی ہے جنہوں نے اسرائیلی وزیراعظم کے خلاف فیصلہ دیا تھا۔ اس سے قبل عالمی عدالت کے پراسیکیوٹر کو بھی امریکی پابندیوں کا سامنا کرنا پڑا۔ اقوام متحدہ اور عالمی امن کی نگہبانی کے قواعد وضوابط اور اداروں کے وجود کو اس طرح بے معنی بنانے کا عمل اپنے آپ میں ایک بڑی دلیل ہے کہ طاقت کے زور پر دنیا میں من مانی کا دستور رائج کیا جا رہا ہے۔ مگر اس دھونس کے نتیجے میں دنیا میں دہائیوں سے قائم توازن کے اصول بگڑ رہے ہیں اور عالمی نظام پر اعتماد درہم برہم ہو چکا ہے۔ اسرائیل کی جانب سے آئے روز ہمسایہ ممالک پر حملے‘ جن کا سلسلہ ایران پر حالیہ حملوں کے بعد خاصا پھیل چکا ہے‘ اس اندیشے کو سچ ثابت کرتے ہیں۔ اگرچہ امریکی محکمہ خارجہ کا بیان یہ ہے کہ اس کارروائی میں امریکی معاونت شامل نہیں تھی مگر یہ ایک کھلا راز ہے کہ امریکی اشیرباد کے بغیر اسرائیل یہ سب نہیں کر سکتا۔ توانائی سے مالا مال مشرقِ وسطیٰ دنیا کا دل ہے اور اسرائیلی جارحیت اس کے پائیدار امن اور ترقی کے امکانات پر منڈلاتا ہوا خطرہ۔ مشرقِ وسطیٰ کے لیڈروں کی ذمہ داری ہے کہ اسرائیلی جارحیت اور علاقائی کشیدگی کی روک تھام کیلئے مؤثر اقدامات کریں۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں