ایران اسرائیل تنازع اور صدر ٹرمپ
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران اور اسرائیل میں قیامِ امن کا اشارہ دیا ہے۔ گزشتہ روز سوشل میڈیا پلیٹ فارم ’’ٹرتھ سوشل‘‘ پر امریکی صدر نے ایک پیغام میں کہا کہ ایران اور اسرائیل کو ایک معاہدہ کرنا چاہیے اور وہ معاہدہ کریں گے‘ بالکل اسی طرح جیسے میں نے پاکستان اور بھارت میں کروایا تھا۔ صدر ٹرمپ نے اپنے پہلے دور میں کو سوو اور سربیا میں امن قائم کرنے کی مثال بھی دی ہے‘ جو بقول اُن کے ایک دوسرے کے پیچھے پڑے ہوئے تھے اور یہ طویل عرصے سے جاری تنازع جنگ کا پیش خیمہ بننے کو تھا لیکن اُنہوں نے اسے روکا۔ صدر ٹرمپ نے مصر اور ایتھوپیا میں آبی تنازع کا حوالہ بھی دیا ہے جس کے بارے وہ کہتے ہیں کہ اُن کی مداخلت سے امن ہوا۔ صدر ٹرمپ کہتے ہیں کہ اسی طرح ہم جلد ہی اسرائیل اور ایران کے درمیان امن قائم کریں گے‘ اس سلسلے میں بہت سی کالیں اور ملاقاتیں ہو رہی ہیں۔ امریکی صدر نے جو کہا خوش آئند ہے۔ امن کا کوئی متبادل نہیں اور جنگ بندی سے بہتر کیا چیز ہو سکتی ہے؟ مگر زمینی حقائق اور عملی اقدامات کو دیکھا جائے تو امریکی صدر کے الفاظ اور عمل میں بُعد طرفین نظر آتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ایران کا جوہری تنازع 2015ء میں طے پانے والے عالمی جوہری معاہدے سے سمٹ چکا تھا۔ اس معاہدے کی رُو سے ایران کو کم درجے پر یورینیم افزودہ کرنے کی اجازت دی گئی‘ جو پُرامن مقاصد کیلئے استعمال ہو سکتی ہے‘ جوہری ہتھیار کیلئے نہیں۔ مگر 2017ء میں صدر ٹرمپ نے بغیر کسی جواز کے اس معاہدے کوختم کیا‘ ایران یورینیم افزدوگی کی بندش سے آزاد ہو گیا یوں وہ سلسلہ شروع ہوا جس کے نتیجے میں اب کہتے ہیں کہ وہ چند جوہری ہتھیاروں کیلئے درکار ایندھن کی حد تک پہنچ چکا ہے۔ صدر ٹرمپ کو اپنے اس دوسرے دور میں ایران کی جوہری صلاحیت میں اضافے کا اور ایران کو امریکی دھمکیوں کا سامنا کرنا پڑا مگر فریقین میں عقلیت غالب آئی اور اپریل میں بات چیت کا سلسلہ شروع ہو گیا جس میں باوجود اختلافِ رائے کے تعطل نہیں آیا یہاں تک کہ گزشتہ ہفتے اسرائیلی حملے نے امریکہ ایران مذاکرات کی اس پیشرفت کو ملیا میٹ کر دیا۔ یہ حملہ امریکی حمایت یا اعانت کے ساتھ ہوا یا اس کے بغیر‘ اس سے قطع نظر امریکہ اس حقیقت سے تو انکار نہیں کر سکتا کہ یہ حملہ اس کے ساتھ مذاکرات کے ایک فریق پر ہوا ہے‘ اور اس اقدام سے معاہدہ طے پانے اور جوہری صلاحیت کو قابو میں کرنے کی کوششوں کو نقصان پہنچا ہے۔ اسرائیل کی اس جارحیت کے مضمرات ظاہر وباہر ہیں۔ خطے میں جنگ کا پھیلاؤ‘ توانائی کی سپلائی کی بے یقینی اور عالمی قیمتوں میں اضافہ‘ آبنائے ہرمز کی بندش یا ایران کی این پی ٹی معاہدے سے علیحدگی بہت سے خدشات قابلِ غور ہیں۔ اس صورتحال میں اصولی طور پر امریکہ کو اسرائیلی حملے اور خطے کی سلامتی کو خطرے میں ڈالنے کی اس حرکت سے اپنی بریت ثابت کرنی چاہیے تھی تاکہ ایک عالمی طاقت کی حیثیت سے اس کے اصولی موقف کو تقویت ملتی۔ مگر امریکہ کا رویہ اس کے برعکس رہا۔ بہرحال دیر آید درست آید‘ اگر امریکہ کو مشرق وسطیٰ میں لگی آگ کے نتائج کا احساس ہو چلا ہے تو مقام شکر ہے۔ اب ضروری ہے کہ اس معاملے کو سنجیدگی اور دیانتداری سے سمیٹنے کی کوشش کی جائے نہ کہ بات چیت کی آڑ میں وقت گزاری کے حربے اور قیام امن کے بھیس میں کسی نئی چال کے طور پر۔ امن کا امکان ہمیشہ موجود رہتا ہے‘ بشرطیکہ اس کیلئے کوششوں میں خلوص‘ ہمدردی اور سنجیدگی ہو۔ مگر اس کیلئے اعتماد اہم شرط ہے۔ لیکن ایران اسرائیل تنازع میں امریکہ کی غیر جانبداری ثابت نہیں؛ چنانچہ ثالثی کی کوششوں کی کامیابی اس سے مشروط ہے کہ امریکہ خود پر اعتماد کی بحالی میں سنجیدگی دکھائے۔ یہ اسرائیل کی یکطرفہ اور انصاف کے اصولوں کے منافی طرفداری سے ممکن نہیں۔ صدر ٹرمپ اپنی ثالثی کی ٹوپی میں ایران اسرائیل امن کا پَر سجانا چاہتے ہیں تو انہیں معروضیت دکھانا ہو گی۔