علاقائی صورتحال کے معاشی اثرات
علاقائی صورتحال اور ملکی پالیسیوں میں تبدیلیوں کے اثرات کے پیشِ نظر سٹیٹ بینک آف پاکستان نے پالیسی ریٹ کے حوالے سے محتاط فیصلہ کیا ہے اور شرح سود کو 11 فیصد کی سطح پر برقرار رکھا گیا ہے۔گزشتہ ہفتے تک شرح سود میں نصف فیصد تک کمی کا خیال ظاہر کیا جارہا تھا مگر علاقائی صورتحال ‘ جنگ اور بے یقینی اسے برقرار رکھے جانے کی بنیادی وجہ معلوم ہوتی ہے۔ علاقائی صورتحال کے معاشی اثرات مہنگائی میں اضافے کا امکان ظاہر کرتے ہیں۔پچھلے پانچ دنوں میں تیل کی عالمی قیمتوں میں تقریباً سات فیصد اضافہ ہو چکا ہے۔ مگر آنیوالے وقت میں یہ رجحان کیا صورت اختیار کرتا ہے اس کا فیصلہ وقت کرے گا۔ ایران اسرائیل تصادم شدت اور طوالت اختیار کرتا ہے تو تیل کی قیمتوں میں اضافے کا واضح امکان موجود ہے اور اگر بات تصفیے کی طرف جاتی ہے تو یہ پاکستان سمیت ان سبھی ممالک کی معیشت کیلئے خوش آئند ہو گی جن کا انحصار درآمدی توانائی پرہے۔بجٹ میں آئندہ مالی سال کیلئے افراطِ زر کا ہدف 7.5 فیصدمقرر کیا گیا ہے تاہم خطے میں جنگ کی صورتحال اور تیل کی قیمتوں میں اضافے کی صورت میں مہنگائی میں اضافہ ہو سکتا ہے۔اس پس منظر میں شرح سود برقرار رکھنے کا فیصلہ وقتی طور پر درست معلوم ہوتا ہے مگر اس کے پائیدار نتائج تبھی سامنے آئیں گے جب حکومت ٹیکس اصلاحات اور توانائی کے شعبے میں بہتری‘ برآمدات میں اضافہ اور سرمایہ کار دوست پالیسیاں اپنائے گی۔ صرف شرح سود کے ذریعے معیشت کو مکمل طور پر بحال کرنا ممکن نہیں ۔ اگرایسا ہوسکتا تو گزشتہ اپریل سے اب تک شرح سود میں نصف کمی کے اثرات معاشی شرح نمو پر نظر آتے ‘ مگر رواں مالی سال کی 2.7 فیصد شرح نمو سے ثابت نہیں کیا جاسکتا۔ شرح سود میں نصف کمی سے کاروباری طبقے کیلئے کچھ آسانی ضرور پیدا ہوئی ہے مگر یہ شرح اب بھی خاصی بلند ہے اور چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروباری افراد کیلئے قرض لینا اور سرمایہ کاری کرنا اب بھی آسان فیصلہ نہیں۔اسی طرح گھروں اور گاڑیوں کیلئے انفرادی قرض بھی بدستورپہنچ سے باہر ہے۔ مگر ان حالات میں شرح سود میں بڑی کمی کے اثرات بھی معیشت کیلئے سود مند ثابت نہیں ہوں گے کیونکہ سستے قرض افراطِ زر کا سبب بنتے ہیں جو اِن حالات میں معیشت کیلئے موافق نہیں۔ جیو پولیٹکل حوالے سے ہمارے خطے کی اس خصوصی صورتحال میں محتاط فیصلے وقت کی ضرورت ہیں ۔ کوشش یہ ہونی چاہیے کہ افراط زر جہاں تک ممکن ہو قابو میں رہے۔ پچھلے چند ماہ اس حوالے سے اچھے گزرے۔ اگرچہ توانائی کی قیمتیں بلند سطح پر برقرار رہیں مگر اشیائے خورو نوش کے بھاؤ قابو میں رہنے سے شہریوں کیلئے عمومی مہنگائی کا اشاریہ بہتر سطح پر تھا ۔یہ رجحان آنے والے وقت میں کس طرح برقرار رکھنا ہے یہ حکومت کی معاشی ٹیم کی قوتِ فیصلہ اورتدبیرکا امتحان ہے۔ آنے والے وقت میں تیل اور گیس کی ترسیل میں ممکنہ رکاوٹوں کے منظر نامے کو مد نظر رکھتے ہوئے اس کیلئے پیشگی تیاری کی بھی ضرورت ہے۔تیل کی قیمتوں کا اتار چڑھاؤ مہنگائی کا اہم محرک ہوتا ہے اور تیل کی قیمتوں پر بھاری ٹیکسوں کی وجہ سے یہ پہلے ہی یہ صارفین کی قوتِ خرید کا امتحان لے رہی ہیں‘ جبکہ مہنگی ترین بجلی اور گیس اس پر مستزاد۔ توانائی کی قیمتوں میں مزید اضافہ افراط ِزر کے پیشگی اندازوں پر اثر انداز ہو گا اور معاشی ترقی کی رفتار پر بھی جو حکومت نے مالی سال 2025ء کی 2.7 فیصد کے مقابلے میں مالی سال2026ء کیلئے 4.2 فیصد مقرر کی ہے۔ وزیر خزانہ نے بجٹ تقریر میں آئندہ مالی سال کے دوران شرح سود بھی سنگل ڈیجٹ میں آنے کی توقع ظاہر کی تھی۔ ان امکانات کو یقینی بنانے کیلئے حکومتی معاشی ٹیم کو تگ و دو کرنا پڑے گی ۔ عام حالات میں بھی ان اہداف کا احصول شاید آسان نہ ہوتا مگر خطے کی موجودہ صورتحال پاکستان کی معاشی بحالی اور استحکام کی کوشش کیلئے مزید چیلنجز پیدا کرتی نظر آتی ہے۔